قصہ دو کتابوں کا۔۔۔

یہ تحریر 1554 مرتبہ دیکھی گئی

بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مصنف کی ایک کتاب ابھی آپ پڑھ رہے ہوں۔اس کی فضا میں گم ہوں۔ جرعہ جرعہ کشید کر رہے ہوں اور اس مصنف کی دوسری کتاب میز پر دھری اپنی باری کا انتظار کر رہی ہو۔۔۔۔پھر ہم نے ایک تجربہ کر ڈالا دونوں ذائقوں سے ایک تیسرا ذائقہ کشید کیا۔۔۔۔دونوں کتابیں ساتھ ساتھ پڑھیں۔۔۔ایک صبح ایک شام ۔۔۔ایک کے کچھ ورق ایک نشست میں تو دوسری کے دوسری نشست میں۔۔۔۔۔

قصہ یہ ہے کہ ہمارے دوست کم محسن عدنان بشیر نے ایک کتاب کا تعارف ہم سے کرایا۔۔۔۔۔باونی۔۔۔۔سب سے پہلے تو نام ہی دل میں کُھب گیا۔۔۔۔۔سوشل میڈیا خاص طور پر یوٹیوب نے ہمارا معاشرہ خاصا بدل ڈالا ہے۔۔۔اب لوگ ڈرامہ اور سفرنامہ پڑھنا کم کم گوارا کرتے ہیں۔۔۔۔اس کی جگہ فلم اور ڈاکومنٹری نے لے لی ہے۔لیکن دکھ یہ ہے کہ یہاں بھی وہی کمی ہے جو ناول پر بننے والی فلموں میں ہے۔یعنی قاری کے ہاتھ میں اسٹئیرنگ کنٹرول نہ ہونے کے برابر۔۔۔۔۔۔۔قراؑت سے قاری ناول میں اگے درخت موسم مکان گلیاں لوگ اور ان کےلباس خود بنایا کرتا ہے۔ہر قاری اپنی فلم کا خود ڈائریکٹر ہوتا ہے پھر اپنی مرضی کی کاسٹ اور اپنی مرضی کا سیٹ۔۔۔۔

ویسے بھی جو لطف چھجو کے چوبارے بیٹھ کر بلخ اور بخارے کی بابت پڑھنے کا ہے۔۔۔۔وہ وہاں جانے کا تو ہر گز نہیں۔آپ نے اکثر نوٹ کیا ہوگا آپ ایک جگہ اچھی طرح گھوم پھر کر آئیں پھر اسی جگہ کا سفرنامہ پڑھیں تو آپ کو لگے گا ارے۔۔۔۔۔۔یہ میں نے تو نہ دیکھا نہ محسوس کیا۔۔۔۔۔اب اگر سفرنامہ پڑھنے کے بعد آپ وہاں جائیں تو آپ کی کیفیت ہی الگ ہوگی۔۔۔۔بس مصنف کا جادوگر ہونا شرط ہے۔۔۔۔۔

ایسے کئی افراد سے ملاقات ہوئی جو حج و عمرہ سے واپس آئے۔۔۔۔ان کے احساسات و جذبات بھی دیکھے اور سنے لیکن جب مستنصر کی کتاب غار حرا میں ایک رات پڑھی۔۔۔۔۔تو دل دھڑکنا بھول گیا۔۔۔

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔۔۔۔

اسی طرح پاکستان کے چاروں صوبوں میں جانے کا اتفاق ہوا لیکن جب وہ علاقے رحیم گل کی جنت کی تلاش پڑھنے کے بعد دوبارہ دیکھے تو مزہ دو آتشہ ہوگیا۔۔۔۔اب باونی پڑھنے کے بعد سہ آتشہ ہو گیا ہے۔

باونی کا سب سے دلچسپ پہلو اس میں سفرانچوں کا ہونا ہے۔۔۔آپ ایک ہی کتاب میں سمندر سے پہاڑوں تک۔۔۔۔بلوچستان سندھ سے پنجاب پختونخواہ اور بلتستان تک ہو آتے ہیں۔۔۔۔اور نہ صرف ہو آتے ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے آپ بطور قاری ایک شاعرانہ اور طلسماتی فضا کا حصہ ہوں۔۔۔۔باونی ڈائری کے صفحات کا سا ذائقہ رکھتی ہے۔۔۔۔مجھے لگتا ہے عرفان شہود کے سفرنامچے ایک نئی مقبول صنف کو جنم دیں گے۔۔۔۔

اب بات کرتے ہیں۔۔۔۔بے سمتی کے دن۔۔۔کی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا ہے دونوں کتب کا مطالعہ بین بین رہا۔۔۔۔۔تو پہلا تاثر تو یہی ابھرا کہ میں اسے باونی پارٹ ٹو کہہ سکتا ہوں۔۔۔ باونی ان اسفار کا نثری اظہار ہے تو بے سمتی کے دن اسی کا شاعرانہ اظہار ہے۔۔۔۔مجھے لگا شاعر نگری نگری پھر کر اپنی نظمیں بن رہا ہے۔۔۔۔ایک سیاح کی نظموں میں اگر سیاحت نہ آئے تو اس کی سیاحت پر سوال اٹھتا ہے یا اس کی شاعری پر کیونکہ ہر دو میں سے ایک فیک یا مصنوعی ہوگی۔۔۔۔عرفان شہود کی نظموں میں علاقے ،تہذیبیں، رسوم ، روایات اور پھر نوسٹلجیا جگہ جگہ اپنی جگہ بناتا ہے۔۔۔پرویز ساحر نے مقدمے میں لکھا ہے

“عرفان شہود کی ہر نظم گویا حیرت کی پوٹلی ہے” بالکل بجا ہے کیونکہ وہ کبھی شالاط سے ربط قائم کرتا ہے تو کبھی جدید عہد کی چکاچوند سے۔۔۔ کبھی نوشکی سے نظم پروتا ہے تو کبھی شمورہ دیوی کی ساحری سے۔۔۔کبھی شاہراہ ریشم سے گزرتا ہے تو کبھی سندھ کے پانیوں کے ساتھ بہتا ہے۔۔۔کبھی مذہب کے تقدس میں خود کو گوندھتا ہے تو کبھی کاٹھا کامریڈ بن کر سامنے آتا ہے۔۔۔۔۔اگر میں اس کتاب کو ایک ترکیب میں بیان کروں تو عمروعیار کی زنبیل ہے جس میں تاریخ و تہذیب اور انسان ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔دلیپ کمار کی آخری خواہش سے مجھے یک بیک انتظار حسین کی بستی اور آب گم کا بشارت یاد آ گیا۔۔۔اپنی اصل سے جڑنے کی خواہش۔۔۔جنم بھومی کی خوشبو اور بچپن کا سحر آپ کو بڑھاپے میں اپنی طرف کھینچتا ہے۔۔۔۔۔اس نظم کو جب حسنین جمال نے پڑھا تو نظم پنکھ لگا کر دلیپ کمار کے کمرے تک پہنچ گئی۔۔۔۔دلیپ کمار نے اسے سراہا اور انگریزی میں ترجمہ کی خواہش ظاہر کی۔۔۔۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اب کوئی اس ترجمے میں اگلا ایک گھنٹہ بھی دیر نہ کرے ورنہ شاید کچھ ہو جائے گا۔۔۔۔۔دلیپ کمار کی خواہش تھی کی “دلیپ کمار کی آخری خواہش” کو انگریزی کے قالب میں ڈھالا جائے۔ ہماری چھوٹی بہن عاصمہ خان انگریزی کی شاعرہ ہیں انہیں یہ ذمہ داری سونپی ترجمہ ہوا۔دلیپ کمار کی خواہش کی تکمیل کرنا کیسا خوشگوار واقعہ تھا آپ کو کیا بتائیں۔یوں لگا باسودے کی مریم کو حجور جی کا مکہ اور مدینہ مل گیا ہو۔عرفان شہود کا شکریہ کہ اس کی ان دونوں کتابوں سے کچھ دن حالت حال میں رہنا نصیب ہوا۔۔۔۔امید ہے ابھی کچھ اور دن ہم باونی اور بے سمتی کے دن کے حصار میں رہیں گے۔