اوکھے لوگ

یہ تحریر 2330 مرتبہ دیکھی گئی

انتظار حسین اکیسویں صدی کا باشندہ ہے
مگر وہ اپنا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پھاڑ کر
ماضی کے دیاروں میں چھپتا پھرتا ہے
(وہاں کے لوگ مہاجر پکارتے ہیں اُسے)
مشتاق احمد یوسفی زعفران کا کھیت ہے
مگر اس کا نظارہ قہقہوں کا باعث نہیں بنتا
کم بخت رُلاتا
(رُلا رُلا کے مصیبت میں ڈال دیتا ہے)
احمد مشتاق پرندہ ہے
مگر وہ کچھ عرصے سے سائبیریا کے گیت گاتا رہتا ہے،
وہاں واپس نہیں جانا چاہتا
(“عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے”)
محمد سلیم الرحمن خاموشی ہے
مگر وہ جانتا ہے کہ کتنی آوازوں کے دل اس کے سینے میں دھڑکتے ہیں
(دیوتاؤں کے محل سے آگ چرانے والا)
زاہد ڈار دیمک ہے
مگر اپنا آپ چاٹ چاٹ کر زندہ ہے
(گرچہ الزام کتابوں کو دیا جاتا ہے)
اور میں” نہیں “ہوں
مگر یہ کون ہے
یہ کوئی بہروپیا ہے
(اسے بتاؤ اسے مار دیا جائے گا)