غزل

یہ تحریر 1185 مرتبہ دیکھی گئی

ندی کی روشنی تھی اور چڑیا بولتی تھی
اندھیری رات ریزہ ریزہ آنسو ڈولتی تھی

خموشی جل رہی تھی ہونٹ پہرہ دے رہے تھے
ہوائیں سو رہی تھیں سانس کی لو بولتی تھی

مسافر تھے شبینہ ڈاک کا دفتر کھلا تھا
کہیں حسرت پرانی چھٹیوں کو تولتی تھی

پلک جھپکی تو گھائل چاند آ کر چھپ گیا تھا
گلہری چپکے چپکے ساری شاخیں کھولتی تھی

اداسی ایسی تھی کہ رات پاگل ہو گئ تھی
دکھوں کی کوک دل کے کان میں رس گھولتی تھی