غزل

یہ تحریر 217 مرتبہ دیکھی گئی

نظر میں رکھتا تھا وہ ، اور نظر میں رہتا تھا
فلک صفت انھی دیوار و در میں رہتا تھا

اِک آسمانی نوشتے ہی میں جگہ نہ ملی
مِری زمیں کے تو ہر بحر و بر میں رہتا تھا

نہ پڑھ خطوطِ کفِ دست ، میرے دست شناس
کہ وہ مِرے خطِ دستِ ہنر میں رہتا تھا

نظر لگے نہ کہیں اس نگاہ بازی کو
سوحوصلہ اسی خوف و خطر میں رہتا تھا

میں اُس کے جور و جفا پر رہا تھا خندہ کناں
کہ وہ مِرے دِلِ سینہ سپر میں رہتا تھا

جو میرے لفظوں کی اپنی سی کر گیا تفسیر
کُھلا ، کہ وہ تو جہانِ دِگر میں رہتا تھا

بچا بچا کے رکھا عشق سب سے گرچہ بہت
ہر ایک صبح وہ تازہ خبر میں رہتا تھا

مِرے حوالے سے بچ بچ کے چلنے والا شخص
مِری شناخت کے ہر خیر و شر میں رہتا تھا

زبیر ، ہم کو جُدا کر گئے فقط دو لفظ
اگر میں رہتا تھا وہ ، مَیں مگر میں رہتا تھا