شیکسپیئر کا حریف…. بین جانسن

یہ تحریر 515 مرتبہ دیکھی گئی

شیکسپیئر کے حالاتِ زندگی بہت کم معلوم ہیں۔ تاہم اس بات پر عام طور پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ وہ زیادہ پڑھا لکھا آدمی نہ تھا۔ اس کے دور میں لاطینی کو علمی زبان کی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن اسے لاطینی کی یونہی سی شدبد ہو گی۔ البتہ اس کے ڈراموں کے منابع کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزی میں ہونے والے ترجموں کو شوق اور غور سے پڑھتا تھا۔ ہم اسے عالم فاضل نہیں کہہ سکتے لیکن اچھا قاری کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ اس کے برعکس اس کا ہم عصر ڈراما نویس بین جانسن (۱۵۷۲ء-۱۶۳۷ء) جسے شیکسپیئر کا حریف سمجھنا چاہیے پورا علامہ تھا۔ وہ آکسفرڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کا اعزازی گریجوایٹ تھا۔ لاطینی میں طاق تھا۔ اسے ملک الشعرا بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ پڑھنے لکھنے کے علاوہ اس کے اور بھی مشاغل تھے۔ فوج میں بھرتی ہو کر ہالینڈ میں اداکاری کرتا رہا۔ ایک دفعہ اس نے ایک ساتھی اداکار کو مار ہی ڈالا اور جیل جا پہنچا۔ علم و فضل اپنی جگہ لیکن وہ بدمزاج اور بدزبان آدمی تھا۔ اسے اپنے ہم عصر ڈرامانگار زہر لگتے تھے۔ دل میں کہتا ہو گا کہ کہاں مجھ جیسا فاضل آدمی، کہاں بازاری، دیہاتی لوگ جو روزی کمانے کی خاطر تھیٹر سے وابستہ ہو گئے ہیں۔
ان سب باتوں کے باوجود اُسے لندن کی عام زندگی سے بڑی دلچسپی تھی۔ اس نے خود کو شاہی دربار اور امرا کی محفلوں تک محدود نہ رکھا تھا۔ وہ نچلے طبقے کے اور جرائم پیشہ لوگوں کے درمیان بھی اٹھتا بیٹھتا تھا۔ فضیلت مآبی ایک طرف، ان طبقوں کی محفلوں، بولی ٹھولی اور روزمرہ کی باتوں کا جتنا اسے پتا تھا اس کے ہم عصر ڈراموں نگاروں کو شاید ہی علم ہو۔
شیکسپیئر کی دنیا ہمارے لیے شاید تھوڑی سی غرابت رکھتی ہو لیکن بین جونسن سے جو چند بہترین ڈرامے ہیں وہ تو آج کل کے پاکستان کا عکس معلوم ہوتے ہیں۔ ان ڈراموں میں کنجوسوں، عیاروں، گھامڑوں، لالچیوں، خبطیوں اور گھمنڈوں کی بھرمار ہے۔ بغیر محنت کے راتوں رات امیر ہو جانے کی ہوس تمام اخلاقی اقدار پر غالب آ گئی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کہیں سے ترکے میں دولت مل جائے یا دفینہ ہاتھ آ جائے یا کوئی سونا بنانے کا نسخہ سکھا دے۔ اس چکر میں وہ بے وقوف بن کر اپنی دولت اور عزت گنوا بیٹھتے ہیں۔ آج کے پاکستان کا اخلاقی زوال اور جونسن کا ڈرامائی ابتذال ایک ہی قبیل کی چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔ اس موقع پر بین جونسن کے تین ڈراموں کا مختصر ذکر ضروری ہے جن کو اس کے فن کی معراج خیال کیا جاتا ہے۔ ”وولپونے“ اس کا پہلا ڈراما ہے۔ وولپونے نہایت مکار اور کنجوس آدمی ہے۔ دولت بہت ہے مگر اولاد سے محروم ہے۔ اپنے پڑوسیوں اور واقف کاروں کو الّو بنانے کے لیے وہ جھوٹ موٹ بیمار پڑ جاتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ اپنا مال کسی پڑوسی کو دے دے گا۔ لالچ کے مارے پڑوسیوں کا برا حال ہو گیا۔ ایک نے وولپونے کو خوش کرنے کے لیے اپنے بیٹے کو عاق کر دیا، دوسرا اپنی خوبصورت بیوی کو وولپونے کے پاس لے آیا۔ وولپونے اور اس کا اتنا ہی مکار نوکر پڑوسیوں کی حماقتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے لیکن آخر میں ان کی عیاری کا پول کھل گیا اور دونوں کے ساتھ بری ہوئی۔
دوسرا ڈراما ”کیمیاگر“ ہے۔ یہاں بھی موضوع یہی ہے کہ ہوس کی انتہا کس طرح لوگوں کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ کیمیاگر ظاہر ہے فریب کار ہے مگر بے وقوف لوگ سمجھتے ہیں کہ اسے سونا بنانا آتا ہے اور اس کے گرد جمع رہتے ہیں۔ کیمیاگر جی بھر کر انھیں الّو بناتا ہے۔ ”بارتھولومیو کا میلا“ جیسا ڈراما اس کے ہم عصروں میں کسی نے نہیں لکھا۔ یہ ایک عوامی میلا ہے جس میں نچلے طبقے کے لوگ اور ہر طرح کے جرائم پیشہ افراد اکٹھے ہو جاتے ہیں اور متوسط اور بالائی طبقے کے افراد بھی دل بہلانے کے لیے آ نکلتے ہیں۔ بہت سے نقادوں کو یہ ڈراما معنویت سے خالی اور محض دھماچوکڑی معلوم ہوتا ہے لیکن باختن جیسے جدید نقاد نے ادب میں میلوں ٹھیلوں کی معنویت پر جو لکھا ہے اس کی روشنی میں شاید اس ڈرامے پر نئے سرے سے نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ بین جونسن کو نچلے طبقے کی جتنی بولی ٹھولی معلوم تھی سب اس ڈرامے میں کھپا دی ہے۔
آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالم فاضل بین جونسن کم پڑھے لکھے شیکسپیئر سے مار کیسے کھا گیا؟ معلوم یہی ہوتا ہے کہ بعض صلاحیتیں قدرت انسان کو ودیعت کرتی ہے۔ علم و فضل کے سہارے بڑا ادیب بننا مشکل ہے۔ ایک اور وجہ شاید یہ ہے کہ شیکسپیئر کے ہاں جس طرح کی دردمندی اور اچھے برے کو سمجھنے کی صلاحیت ہے، اس سے بین جونسن محروم تھا۔ اسے تو انسان مضحکہ خیز ہی نظر آتے تھے۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/