سلیم شاہد کی غزلوں کا مجموعہ “صبحِ سفر”

یہ تحریر 2039 مرتبہ دیکھی گئی

ناشر:ہم عصر، 5۔ ٹیمپل روڈ، لاہور

اپنی ایک نظم میں ھولڈرلن خود سے سوال کرتا ہے: “ایسے مردہ دل عہد میں شاعر ہونا کیا ضرور ہے؟” یہ سوال کسی خاص دور یا مقام سے مخصوص نہیں۔ شاعروں کو اس قماش کے چکنم سے ہمیشہ واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے۔ وہ اسے کبھی وقتی سی افسردگی اور کبھی پرجوش قنوطیت کی آڑ لے کر جھیل جاتے ہیں۔ کسی انعام یا صلے کی توقع کے بغیر نباہے چلے جانے، مایوسی اور بے تکے تشدد کی یورشوں کے باوجود درویشانہ اپنے مورچے پر ڈٹے رہنے کی یہ صفت سلیم شاہد کی غزلوں میں بہت واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ماحول اور عہد کتنے ہی مردہ دل، ابتر اور حوصلہ شکن کیوں نہ ہوں، شاعر کو اپنی سی کیے جانے سے مفر نہیں۔ شاعر کو شعر کہتے رہنا ہی سزوار ہے۔ شاعری وہ رہتی ہے جس سے وہ اپنے زنداں کی سلاخیں گھستا رہتا ہے۔

سلیم شاہد کی غزلیں ایسی ہیں جیسے اندھی روشنیوں سے اٹے کسی نیم تاریک منظر کو سرخی سے پونچھا گیا ہو۔ جیسے جا بجا کسی دھماکے یا آتش زنی یا خود رو چراغاں کی کونپلیں پھوٹ رہی ہوں۔ اس کیفیت کو دیکھ کر دل میں یہ توقع ابھرتی ہے کہ یا تو ابھی ابھی سب کچھ تہ و بالا ہو جائے گا یا پھر امن اور سکون لوٹ آئے گا۔ سلیم شاہد کی غزلوں میں جس شہر کا ذکر گرم ہے وہ اپنے آئینے میں ہر طرف اور ہر وقت آندھیوں، آتش زدگیوں، قحط، جنگ کے خوف، تنہائی، اپنی حد سے تجاوز کرنے والے ریگ زاروں، پا بہ رکاب بہاروں اور تن بہ تقدیر عشاق کی تصویریں دیکھتا دکھاتا سہم اور گھٹ کر ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں بے آہنگی، سیلن کی طرح، کوچہ و بازار میں رچتی جا رہی ہے۔ ہر سو تغیر اور زیاں کا خوف ہے۔ یہ صورتِ حال ایک شگاف کی مانند ہے جسے پُر کرنا ممکن نہیں، ایک چیخ کی طرح ہے جسے دبایا نہیں جا سکتا۔ شعر کہنا ایسا ہے جیسے آدمی، ناممکن کو پُر کرنے اور دبا دینے کے جوش میں، خود اس شگاف میں، اس چیخ میں، کود پڑے ۔ اور سلیم شاہد کی غزل جس شہر کی ترجمان ہے اس میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر تن تنہا اس جوکھم سے سنمکھ ہو کر، ہیبت ناک طمانیت سے مایوسی کے سوتے بند کرتا پھر رہا ہے۔ اس مقدر پر کسی کو رشک نہیں آ سکتا۔ ان مٹھی بھر غزلوں میں اور کیا کیا ہے؟ الگ تھلگ رہ جانے کا احساس، کسی کے نہ ہونے کی دکھن، بیگانگی پسند لوگوں کے درمیان دن تیر کرنے کا غم، اس عشق کا ستم جس کی پذیرائی نہ ہو، ایسی بہاروں کا خیال جن کے چہچہے خاموش ہو چکے ہیں۔

یہ کہنا مقصود نہیں کہ ان مضامین کی مثال دوسروں کے ہاں غائب ہے۔ بیشتر جدید شاعری کی طرح نئی اردو غزل نے ابھی نہ صرف ان موضوعات کو چھوا ہے بلکہ احساس کے اور بہت سے پہلوؤں کو بھی اپنایا ہے۔ عبوری دور میں، جب بغیر جادہ و منزل ادھر اُدھر بھٹکتے پھرنے اور برباد جانے کا احساس شدید ہو جائے تو یہی وہ موضوع ہیں جو چکنم کی انتہائی مؤثر اور صحیح عکاسی کر سکتے ہیں۔ سلیم شاہد کو اس لیے پڑھنا چاہیے کہ وہ کسی نہ کسی طرح۔ اگرچہ یہ کام مشکل ہے، سبھی کے لیے مشکل ہے۔ اپنی انفرادیت کو قایم رکھتا ہے۔ اس کے بہتر کلام میں منظم نغمگی کی فضا ہے۔ ایسی بے مہار خیال آفرینی جو شعر کو ابتری کے گھاٹ اُتار دے اس کے ہاں بہت کم ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس کی غزل کسی، جل پھک کر اجلی اجلائی، پھوٹک چیز کی بنی معلوم ہوتی ہے جو کسی بھاری مجسم پاس سے لو کی طرح پھوٹ آتی ہو۔

مگر پورے وقت، شاعروں کی طرح، اس حقیقت سے بھی آگاہ کہ اُس شے کو، جو اپنے اندر ایک رام نہ ہونے والی اور کام نہ آنے والی توانائی  سموئے ہوا میں ادھر سے اُدھر جگمگاہٹ بن کر اُڑتی پھرتی ہے، الفاظ کے سانچے میں انڈیلنے کا نام شاعر ہے۔ نہ کم نہ زیادہ!

فقط یہ وحشتِ اظہار ہے علاج نہیں

یہ بوجھ یوں نہیں اُترے گا سر سے ظاہر ہے