دکان بھی الگ، سودا بھی الگ

یہ تحریر 1201 مرتبہ دیکھی گئی

تنقید کی آزادی، مظفر علی سید ۔

دستاویزمطبوعات، لاہور ۔ ص 339 ایک سو اسی روپیے
عقل کے کام تو مظفر علی سید کرتے ہی رہتے ہیں لیکن تقریبا پینتالیس سال تک تنقید کے اکھاڑے میں خم ٹھونکنے کے بعد انھوں نے عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے تنقیدی مقالات کو، جو متفرق رسالوں میں بکھرے ہوئے تھے، کتابی صورت میں شائع کرنے کی ضرورت محسوس کر لی۔ پتا نہیں یہ دیر آید درست آید والی تمیز داری ان کی اپنی ہے یا اس کی تمام تر داد ان کے ناشر اشرف سلیم کو ملنی چاہیے۔ اشرف سلیم کے پاس کوئی خاص ٹوٹکا ہوگا جو سید صاحب کو شیشے میں اتارنے میں کامیاب رہے۔ بہرحال، اس مجموعے کی اشاعت خوش آئند ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سید صاحب کے مخالفین اسے مقالاتِ آہ و فغاں سے زیادہ کا مقام دینے کو تیار نہ ہوں گے۔
صف اول کے کسی ادبی نقاد کے ساتھ اس سے بڑا ظلم نہیں ہو سکتا (گو اس معاملے میں سید صاحب جتنے مظلوم ہیں اتنے ہی ظالم بھی) کہ وہ تقریباً نصف صدی تک باقاعدگی سے تنقید لکھے اور اس کی تحریریں کتابی صورت میں دستیاب نہ ہوں۔ ایسی صورت میں ان کا بالاستیعاب مطالعہ بھی ممکن نہیں رہتا۔ تحسین یا تنقیص تو بعد کی بات ہے۔ “تنقید کی آزادی” کی اشاعت سے مظفر علی سید کی تنقید کی عدم دستیابی کا گلہ نہیں رہا۔ لیکن سید صاحب نے جتنا لکھا ہے اس کا غالباً پانچواں حصہ ہی اس مجموعے میں آ سکا۔ شنید ہے کہ اور مجموعے بھی شائع ہوں گے۔
سید صاحب سے ہمارے کم ادیب خوش ہیں۔ ان کے ایک ادبی دشمن نے مجموعے کی اشاعت پر خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے کہا۔ “میں مدت سے موصوف کا تیا پانچا کرنا چاہتا تھا لیکن ان کے مضمونوں تک رسائی بڑی مشکل تھی۔ شکر خدا کا کہ وہ خود ہی انھیں یکجا چھپوانے کی غلطی کر بیٹھے۔ اب ان سے دو دو ہاتھ کرنے کا لطف آئے گا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔”
ابھی تک انھوں نے دو دو ہاتھ کیے نہیں۔ ویسے بھی وہ شیر فروش قسم کے نقاد معلوم ہوتے ہیں جن کے تنقیدی کڑھاؤ میں پانی زیادہ ہوتا ہے اور وہ بھی چھپڑ کا۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ سید صاحب کا تعلق کسی ادبی مافیا سے ہے۔ وہ اس کے سربراہ نہ سہی، بانی اراکین میں شاید شامل ہوں۔ اگر یہ مافیا سرگرم عمل ہے تو حکمت عملی وضع کرنے کی غرض سے اور بزن فہرستوں کی تیاری کے لیے گاہے گاہے اس کے خفیہ اجلاس بھی ہوتے ہوں گے مگر اتا پتا کبھی ملا نہیں۔
سید صاحب کے ساتھ دراصل مشکل یہ ہے کہ ہر متبحر اور احتیاط پسند نقاد کی طرح وہ بعض سخت قسم کے ادبی معیار ہمیشہ اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ شاعر ہو یا نقاد یا ادیب، چھوٹا ہو یا بڑا، وہ ہر کسی کی کاوش کو انھیں معیاروں کی روشنی میں پرکھنا چاہتے ہیں۔ چھوٹوں کی طرف تو وہ ویسے بھی کم کم ملتفت ہوتے ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ ہوتے ہی نہیں (ان کی غیر مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہو گی)۔ رہے بڑے تو انھیں بھی کسنے سے باز نہیں آتے۔ معیاروں کی جکڑن کے علاوہ ان کے پاس کہنے کے لیے فقرے بھی بہت ہوتے ہیں۔ یہ خیال عام ہے اور کسی حد تک اس کی تائید کیے بغیر چارہ نہیں کہ وہ کسی کی تعریف کرنا نہیں چاہتے۔ اگر بہ امر مجبوری یہ ناگوار فریضہ انجام دینا پڑ جائے تو تعریف کرتے کرتے ممدوح کے راستے میں خس پوش گڑھا کھودنے کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں تنقید اگر صحیح ڈگر پر چل رہی ہوتی تو ان کا رویہ بہت اکھرتا۔ لیکن پچھلے بیس پچیس سال سے اردو تنقید گنی چنی مثالوں کو چھوڑ کر، پورے استقلال سے بے آبروئی کی نئی منزلوں کی طرف رواں دواں ہے۔ تنقید اور تہنیتی کارڈ میں کوئی خاص فرق نہیں رہا۔ تنقید لکھی جاتی ہے تو کتابوں کی رونمائی کی تقریبات کے لیے اور بالعموم احمقانہ حد تک تحسین آمیز ہوتی ہے۔ جو لکھنے والے زیادہ سمجھ دار ہیں وہ ان موقعوں پر سامعین کے کانوں میں چٹکلے جھونک کر نکل آتے ہیں۔ کھری اصیل، مستحکم تنقید ہمارے درمیان سے غائب ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال میں سید صاحب کا کسی سے مرعوب نہ ہونےوالا رویہ، خوبیوں سے زیادہ خامیوں کی طرف توجہ دلانے والا انداز صحت مندانہ ہے۔ بخل سے کام لینا ان کی افتادِ طبع سہی۔ اب ان کا یہ عیب بھی قابلِ داد معلوم ہونے لگا ہے۔
سید صاحب کا جھکاؤ نہ تو دائیں بازو کی طرف ہے نہ بائیں بازو کی طرف۔ ان بازوؤں کا خالی پن اور ضرورت سے زیادہ مصلحت اندیشی انھیں راس نہیں آتی۔ وہ ان دونوں انتہاؤں کو ٹھکرا کر وہی کچھ لکھتے رہے جو انھیں اپنی بصیرت کی روشنی میں صحیح معلوم ہوا۔ لیکن ادبی گروہوں میں شامل نہ ہونے، ان کی ہاں میں ہاں نہ ملانے، کی سزا مل کر رہتی ہے جو آدمی ہر ایرے غیرے کی کتاب پر تقریظ لکھنے پر آمادہ نہ ہوگا اسے نک چڑھا قرار دے کر نظر انداز کر دیا جائے گا۔ یہی کچھ مظفر علی سید کے ساتھ ہوا۔ انھوں نے فرانسیسی نقاد سینت بو کے حوالے سے جو لکھا اسے معمولی سے رد و بدل کے بعد خود ان پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ “تنقید کی آزادی” کا جو علم سینت بو نے اٹھا رکھا تھا اس میں عصری شخصیات کے زودِ قیادت سے آزادی، شہرت کے دباؤ سے آزادی، خیالات کے تشدد سے آزادی اور سب سے زیادہ خود نقاد کی اپنی رائے پر استحکام سے آزادی شامل تھی۔ آج کی زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک غیر وابستہ مزاج کا آدمی تھا لیکن اپنی زبان کے ادب سے اوراپنے عصر کے ادب سے جو رابطہ اس کے ذہن میں راسخ تھا اس سے بڑی وابستگی کیا ہوگی؟ دراصل، تنقید اس کے نزدیک ایک چو طرفہ جدلیات کا مضمون تھی۔”
اس مجموعے کے لیے جو مضامین چنے گئے ہیں ان میں خیال کی وحدت موجود ہے۔ ہر مضمون کا کچھ رنگ چھن کر دوسرے مضامین میں شامل نظر آتا ہے۔ چند مضامین بعض مقتدر نقادوں محمد حسن عسکری، فیض، اختر حسین رائے پوری، سلیم احمد اور ممتاز شیریں کی مساعی کا نپا تلا جائزہ پیش کرتے ہیں۔ بعض میں تنقید کی مختلف اور متداخل جہات سے سروکار رکھا گیا ہے۔ تنقید اور تحقیق کے رشتے کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ فکشن پر ڈی ایچ لارنس کی تنقید پر محاکمہ خاصے کی چیز ہے۔ لارنس کے اس پہلو پر اس سے بہتر تحریر اردو میں نہ ملے گی۔ ان مضامین میں زور اس بنیادی نکتے پر ہے کہ ذمے دارانہ اور آزادانہ نقد و نظر کے بغیر کوئی ادب توانا نہیں رہ سکتا۔ یہی نہیں بلکہ تنقیدکا قوام بگڑنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ خود معاشرے کا قوام بگڑ چکا ہے۔
سید صاحب کی نثر کی شستگی کا ذکر نہ کرنا بد ذوقی میں شمار ہوگا۔ تحریر میں کسی طرح کا الجھاؤ نہیں۔ جو کہنا چاہتے ہیں بڑی سہولت سے، تکلفات کے بغیر، کہتے جاتے ہیں۔ سیدھے سادے جملوں کی دھار کی براقی اور برانی مزہ دیتی ہے۔ یہ اسلوب وضع کرنے کے لیے جو تردد کیا گیا اس پر فوراً نظر نہیں جاتی کیوں کہ لہجے کے دھیمے پن کی وجہ سے آراستگی نمایاں نہیں ہوتی۔ سید صاحب چٹکیاں بہت لیتے ہیں لیکن کبھی کلہاڑا بدست یا ٹریگر مست نظر نہیں آتے۔ ان کی نثر تاحال تکرار یا باسی پن کا شکار نہیں ہوتی۔ تازہ تحریریں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اندازِ بیاں اور نکھر گیا ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ کیا سید صاحب نے وہ کر دکھایا جو انھیں کرنا چاہیے تھا یا جس کی ہمیں ان سے توقع تھی؟ افسوس کہ جواب نفی میں ہوگا۔ ہم میں سے بیشتر کی طرح وہ بھی چھوٹے چھوٹے مضامین، تبصرے اور اخباری کالم لکھ لکھ کر اپنی توانائی ریزہ ریزہ برباد کرتے رہے ہیں۔ انھیں چاہیے تھا کہ تنقید کے کردار پر کوئی جامع اور رجحان ساز کتاب قلم بند کرتے۔ یہ نہیں تو اردو ادب کی مفصل تنقیدی تاریخ ہی لکھ ڈالتے۔ مگر کہاں! اس طرف انھوں نے جھانکا تک نہیں۔ دیکھنے میں تو یہی لگتا تھا کہ وہ قلعہ تعمیر کرنے کے لیے بنیادیں کھود رہے ہیں مگر چھوٹے چھوٹے فلیٹ بنا کر رہ گئے۔