جتنے منھ اتنی باتیں

یہ تحریر 2335 مرتبہ دیکھی گئی

رسالوں کو سنبھال کر رکھنا بھی دردِ سر ہے۔ گھر کتب خانہ تو ہوتا نہیں اور بالعموم اس میں اتنی جگہ ہوتی بھی کہاں ہے کہ کتابوں اور رسالوں کا انبار لگایا جا سکے۔ نصیر احمد ناصر کو اچھی سوجھی کہ اپنے رسالے “تسطیر” میں انھوں نے مختلف ادبی مسائل پر جو اداریے تحریر کیے تھے اور ان اداریوں کو پڑھ کر ادیبوں نے تفصیل سے یا مختصراً، بعض اوقات حمایت میں یا مخالفت میں یا ملا جلا اظہارِ خیال کیا تھا اسے کتابی صورت میں یکجا کر دیا۔ چناں چہ ان تمام نزاع انگیز مسائل پر رد و قدح کو چند نشستوں میں پڑھنا ممکن ہو گیا ہے۔
رشید امجد نے اپنے پیش لفظ میں درست لکھا ہے کہ ہر قابلِ توجہ ادبی پرچے کی کوئی نہ کوئی مدیرانہ پالیسی ہونی چاہیے جس سے اس کی ادبی ترجیحات کا اندازہ ہو سکے۔ اگر رسالے میں نئے یا پرانے یا کلاسیکی ادبی رجحانات پر بحث مباحثے کی گنجائش بھی نکل آئے تو اسے سونے پر سہاگا سمجھے۔
میں “تسطیر” سے ناواقف تو نہیں لیکن یہ بات میرے علم میں نہیں تھی کہ رسالہ 1997 سے 2012ء تک شائع ہوتا رہا اور پھر اس کی اشاعت میں پانچ سال کا وقفہ آ گیا۔ اس کا نیا دور 2017ء سے شروع ہوا۔ پانچ سال کا وقفہ کیوں آیا، یہ بھی معلوم نہیں۔ ادبی رسالے کو تھوڑی بہت باقاعدگی سے شائع کرتے رہنا محنت طلب کام ہے، جس کی داد کون دیتا ہے۔ اشتہار بھی عموماً نہیں ملتے۔ بہرحال، امید رکھنی چاہیے کہ رسالے کا تولدِ نو دیرپا اور باثمر ثابت ہوگا۔
سب سے طویل بحث نثری نظم کے تخلیقی جواز کے بارے میں ہے جو پانچ اقساط پر مشتمل ہے اور سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ نظم کی یہ نئی شکل، کہ جس کو مروج ہوئے بمشکل ساٹھ برس ہوئے ہیں اور ادیبوں اور شاعروں کو دل پذیر یا دل خراش محسوس ہوئی ہے۔ دشواری یہ ہے کہ اب اس کا گلا گھونٹا نہیں جا سکتا۔ اس کے وجود کو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ اس طرح کی نظم کے دفاع میں سب سے کام کی بات خود نصیر احمد ناصر نے کہی ہے: “شاید انسان کی ازلی و ادبی تنہائی کسی ایسے شعری نظام اور لسانی آہنگ کی متقاضی ہے جسے ابھی تک دریافت نہیں کیا جا سکا، جسے ابھی تک کوئی نام نہیں دیا جا سکا۔ شاید نثری نظم اظہار کی اسی بے بسی کا غیرمرئی تخلیقی جواز ہے۔” باریک بات ہے جسے “بے بسی” اور “غیرمرئی” نے سہارا دے رکھا ہے۔ تاسف یہ ہے کہ بحث کرنے والوں میں کوئی بھی نصیر احمد ناصر کے قول کو ٹھیک طرح سمجھ نہیں سکا۔ علاوہ ازیں، اس نظم میں، جو نثر کو ذریعہء اظہار بناتی ہو، ایک طرح دارسی آزادی ہوتی ہے۔ یہ آزادی از خود توازن کا تقاضا کرتی ہے کہ بے محابا آزادی اور محدود آزادی دونوں سے نباہ کرنا مشکل ہے۔
احمد ہمیش ہمیشہ اولیت کے خبط میں مبتلا رہے۔ اگر اولیت کا تاج ان کے سر پر سجا دیا جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اولیت ویسے بھی رسمی سا اعزاز ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ جو نظم آپ نے لکھی وہ اچھی ہے یا درمیانی یا معمولی۔ احمد ہمیش اس پر بھی یقین رکھتے تھے کہ بودلیئر بنگال آیا تھا اور وہاں قیام کے دوران میں نثری نظم کا قائل ہوا۔ بودلیئر کبھی بنگال نہیں آیا۔ ایک اور صاحب فرماتے ہیں کہ اگر اس طرح کی نظموں کا کوئی موزوں نام رکھ دیا جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ گویا اعتراض ہیئت پر نہیں، نام پر ہے۔ ایک صاحب نے ریمبراں کو، جو مشہور مصور ہے، نثری نظم کا خالق قرار دیا ہے۔
چند دوسرے مباحث کتاب میں یہ ہیں: “اردو تنقید کے اصطلاحاتی شگاف”، “تاریخ، ادب، تنقید اور نئی نظم” ، “اردو تنقید تاریخ کے جبر کا شکار ہے” ، “سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں شاعری کی افادیت”۔ ان موضوعات پر سوچنے سمجھنے والوں نے کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ ایک بات پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے، اور جو حضرات تدریس سے باقاعدہ وابستہ ہیں وہ بھی پُرزور طریقے سے ہم نوا ہو کر کہتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام انتہائی ناقص ہو چکا ہے اور حکومتوں پر ایسے لوگوں کا تسلط رہا ہے جنھیں اس مسئلے کی سنگینی کا مطلق شعور نہیں یا شعور ہے تو پروا نہیں۔ آیندہ درستی کا امکان غیریقینی ہے بلکہ مزید گراوٹ طے شدہ معلوم ہوتی ہے۔ ادیب اور شاعر اس کا کوئی مداوا نہیں کر سکتے کہ نصاب کی تیاری اور نفاذ میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ ادب کا یہ کام ہے بھی نہیں کہ نظامِ تعلیم کا تعین کرے یا نصاب مرتب کرنے میں ہاتھ بٹائے۔ ادیبوں کی روشن خیالی ملائیت کے دباؤ کی تاب نہیں لا سکتی۔ ادیبوں کی تو بساط ہی کیا خود حکومتیں بھی مذہبی سیاسی جماعتوں سے خائف رہتی ہیں۔
ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ انھیں انگریزی ہی میں رہنے دیا جائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو بعد میں یہ بھی کہا جائے گا کہ علوم کو اردو میں پڑھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ہم ہمہ وقت انگریزی سے چمٹے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ علمی اعتبار سے جرمن، فرانسیسی اور روسی انگریزی کے ہم پلہ ہیں۔ ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ انگریزی میں دوسری زبانوں سے جو ترجمے کیے جاتے ہیں وہ، گنی چنی مثالوں کو چھوڑ کر، ناقص ہوتے ہیں۔
ادب بلکہ خود زبان کو کئی طرف سے خطرے لاحق ہیں۔ “مصنوعی ذہانت” سے ہم سب کو خوف زدہ ہونا چاہیے۔ اگر کمپیوٹر شطرنج کے عالمی چیمپیئن کو شکست دے سکتا ہے تو کچھ عرصے بعد، مناسب پروگراممنگ کے ذریعے، وہ ناول اور افسانے بھی لکھ سکتا ہے، شعر بھی کہہ سکتا ہے۔ کیا پتا، نئی نسل کے دل کو ایسا ہی فکشن، ایسی ہی شاعری، بھائے۔ پھر ہمیں کون پوچھے گا؟
ستیہ پال آنند لکھتے ہیں کہ “اردو کے اہلِ زبان یعنی لکھنؤ والوں کی زبان کے مطابق (کیوں کہ وہ س کی آواز کو بغیر الف کی آواز کا ٹانکا لگائے بغیر نہیں بول سکتے) اسے اسکول بنا لیا ہے اور اب یہ خلط العام لفظ ایک صحیح لفظ بن گیا ہے۔” موصوف امریکہ میں رہتے ہیں۔ انھیں آج تک پتا نہیں چلا کہ یہ مسئلہ صرف اردو کا نہیں، ہسپانوی، فرانسیسی، فارسی اور عربی کا بھی ہے۔ ہسپانوی زبان میں اسٹیشن کو “ایستاسیون” اور اسکول “ایس کویلا” بولتے ہیں۔ فرانسیسیوں نے سین ہی اڑا دیا۔ وہ اسکول کو “ایکول” اور اسٹیٹ کو “ایتا” کہتے ہیں۔ فارسی میں تو سلوموشن کو بھی اسلوموشن بنا دیا گیا ہے۔ اصطبل اور اسفنج بھی اصل میں الف کے بغیر تھے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مغرب میں اب سانیٹ کوئی نہیں لکھتا۔ وکرم سیٹھ کا ناول ہی پڑھ لیا ہوتا جو اول تا آخر سانیٹوں میں لکھا گیا ہے۔
فیض اور ناظم حکمت کی علاقات کا احوال پڑھ کر حیرت ہوئی۔ فیض صاحب کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ بہت عرصے تک ترکی میں غزل ایک مقبول صنف رہی ہے اور دس یا بارہ فارسی بحروں کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔
نصیر احمد ناصر نے ایک اداریے میں لکھا ہے: “سائنس، طب، معاشیات وغیرہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کو معاصر شاعری ایک مختصر سے لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جائے اور فنی و سائنسی شعبوں سے وابستہ ماہرین اور اساتذہ کو ریفریشر کورسز کروائے جائیں تاکہ سائنسی ترقی میں زندگی کے فکری، روحانی اور جمالیاتی پہلو گم نہ ہونے پائیں۔” میں انھیں یقین دلاتا ہوں کہ اربابِ اقتدار کو یہ کبھی منظور نہ ہوگا۔ منظور ہونا تو درکنار، اس نکتے کی اہمیت بھی ان کے پلے نہیں پڑ سکتی۔
کتاب کی طباعت عمدہ ہے۔ پروف کی غلطیاں بہت کم ہیں۔ یہ دیکھ کر اطمینان کا سانس آتا ہے۔
تنقید کے نئے تناظر از نصیر احمد ناصر
ناشر: صریر پبلی کیشنز، لاہور / راولپنڈی
صفحات: 368؛ سات سو روپیے