بن باسی دیوی

یہ تحریر 1346 مرتبہ دیکھی گئی

“بن باسی دیوی” کو پہلی دفعہ پڑھنے کا موقع علی گڑھ میں ملا۔ مسلم یونیورسٹی ہائی اسکول کا کتب خانہ اچھا بھلا تھا۔ کم از کم اسکول میں پڑھنے والوں کے مذاق کی تسکین کے لیے کافی تھا۔ کتابیں اپنے نام جاری کرانے کا طریقہ سیدھا سادہ تھا۔ ایک بڑے سے رجسٹر میں کتابوں کے نام درج تھے۔ طلبا آدھی چھٹی کے دوران میں کتب خانے جا کر رجسٹر کے صفحے الٹ پلٹ کر دیکھتے اور اپنی پسند کی کتاب یا کتابوں کے نام، نمبر اور اپنا نام پرچی پر لکھ کر معاون کتب دار کو دے آتے۔ وہ چھٹی ہونے سے پہلے لڑکوں کی مطلوبہ کتابیں لا رکھتے۔ جب چھٹی ہوتی تو طالب علم اپنی کتابیں لینے ان کے پاس پہنچ جاتے۔
اس وقت مجھے صرف ناول اور قصے کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا۔ تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمے پسند تھے۔ نول کشور پریس کی شائع کردہ داستانوں میں بھی دل لگتا تھا۔ اسکول کے کتب خانے میں نہ جاسوسی ناول تھے نہ داستانیں۔ شاید یہ سمجھا جاتا ہوگا کہ یہ طلبا کے لیے موزوں نہیں۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ میرے ہم عمروں اور ہم جماعتوں میں “طلسم ہوش ربا” اورداستان امیز حمزہ کے دوسرے دفاتر پڑھنے کا چسکا کسی کسی کو تھا۔ اب تو صرف صلاح الدین محمود کا نام یاد آتا ہے جو میری طرح جاسوسی ناولوں اور داستانوں کا رسیا تھا۔
آہستہ آہستہ رجسٹر میں ان کتابوں کی تعداد کم سے کم ہوتی گئی جنھیں پڑھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ ایک دفعہ رجسٹر میں اشرف صبوحی اور “بن باسی دیوی” کے نام نظر آئے۔ اشرف صبوحی کی ادبی حیثیت سے میں بالکل ناآشنا تھا۔ کتاب کے نام سے شبہ ہوا کہ ہندو دیوتاؤں اور دیویوں کا کوئی قصہ ہوگا۔ بن باس کے معنی رام چندر جی کے قصے کی وجہ سے معلوم تھے۔ بہرحال جب اور کوئی کتاب مطلب کی نظر نہ آئی تو پرچی پر “بن باسی دیوی” کا نام اور نمبر لکھ دیا۔
گھر آ کر کتاب کھولی تو حیران رہ گیا۔ اس طرح کا قصہ پہلے کبھی نظر سے نہ گزرا تھا۔ اتنا معلوم تھا کہ ہزاروں سال پہلے آدمی غاروں میں رہتے تھے لیکن اس کا بھولے سے بھی خیال نہ آیا تھا کہ ان کی زندگی کو اس دل نشین پیرایے میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ کتاب ہاتھ سے رکھنے کو دل نہ چاہے۔ میں بیانیے کے سحر کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ زبان کی لطافتوں سے اس وقت اتنی آگہی نہ تھی مگر پڑھتے ہوئے یہ ضرور محسوس ہوا کہ جو کچھ کہنا مقصود ہے وہ بہت آسانی اور روانی سے ادا کر دیا گیا ہے۔ دل چسپی پہلے صفحے سے آخری صفحے تک برقرار رہی۔ کتاب کو ایک دفعہ نہیں دو دفعہ پڑھا اور لطف لیتا رہا۔ اردو میں اس طرح کا فکشن پڑھنے کو کہاں ملتا تھا۔ میں نے “بن باسی دیوی” کو ان کتابوں کی فہرست میں رکھا جو مجھے یاد آتی رہتی تھیں۔
بہت سال گزر گے۔ ایک دن لاہور کی پبلک لائبریری میں کیٹالاگ دیکھتے ہوئے اچانک اشرف صبوحی اور “بن باسی دیوی” کا نام نظر آیا۔ اشرف صبوحی اب میرے لیے گم نام نہ تھے۔ میں ان کو صاحب طرز نثرنگار کے طور پر پہچانتا تھا اور “دلی کی چند عجیب ہستیاں” میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک تھی۔ “بن باسی دیوی” کے نام سے پرانی یاد تازہ ہوئی۔ جی چاہا کہ اسے دوبارہ پڑھا جائے۔ کیا بیس بائیس سال کے طویل وقفے کے بعد بھی یہ ناول پہلے کی طرح متاثر کر سکتا تھا یا شاید لڑکپن ہی میں اس پر بے اختیار فریفتہ ہونا ممکن تھا؟
میں “بن باسی دیوی” اشو کرا کے لے گیا۔ اس عرصے میں، مجھے قبل از تاریخ انسانی معاشروں کے بارے میں بہت نہیں تو پہلے کی بہ نسبت زیادہ معلومات حاصل ہو چکی تھیں۔ اس لیے قصے میں وہ ندرت تو دکھائی نہ دی جس نے پہلے کبھی ششدر کیا تھا۔ تاہم یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہ تھا کہ ناول اب بھی خواندنی تھا۔ کچھ چمک دمک اس میں اشرف صبوحی کے قلم نے پیدا کی تھی۔ ایک بڑی وجہ اس کے نرالے پن کی یہ تھی کہ اس قسم کے ناول نہ اردو میں لکھے جاتے تھے نہ ان کا کوئی ترجمہ کرتا تھا۔
جب پہلی دفعہ یہ ناول پڑھا تھا تو اس سےمطلق غرض نہ تھی کہ اصل مصنف کا نام کیا ہے۔ پتا نہیں، اشرف صبوحی نے مصنف کا نام حذف کیوں کر دیا تھا۔ دوبارہ پڑھا تو خیال آیاکہ پتا چلانا چاہیے کہ یہ ناول انگریزی میں کس نے لکھا تھا اور اسے کیا عنوان دیا تھا۔ یہ معلوم کرنا بہت مشکل تھا۔ لاہور میں اشرف صبوحی کبھی کبھار سر راہے مل جاتے اور ان سے سلام دعا ہو جاتی لیکن اس ایک منٹ کی ملاقات میں یاد ہی نہ رہتا کہ “بن باسی دیوی” کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے۔
1969ء میں ریاض احمد اور میں نے پٹیالہ گراؤنڈ کے ایک تہ خانے میں پریس لگایا۔ اس وقت تک اشرف صبوحی ہم دونوں کو نہ صرف اچھی طرح پہچاننے لگے تھے بلکہ بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔ ایک صبح میں پریس آ رہا تھا کہ ان سے ملاقات ہو گئی۔ ان سے کہا کہ “آئیے، ہمارے ساتھ چائے پیجیے۔ یہاں ہم نے پریس لگایا ہے۔” وہ آ گئے، چائے پی، تھوڑی دیر بیٹھے، کچھ مشورے دیے، ادھر ادھر کی باتیں کی اور چلے گئے۔
اس کے بعد وہ تین چار مہینے کا وقفہ دے کر ہم سے ملنے آ جاتے۔ انھیں میں نے ہمیشہ پیدل آتے جاتے دیکھا۔ شاید ہمارے پاس وہ ذرا دیر کو سستانے آ جاتے ہوں گے۔ دس پندرہ منٹ بیٹھتے، ہنستے ہنساتے، ہمارا جی بہلاتے اور دل رکھنے کو چائے بھی پی لیتے۔ ایک ملاقات کے دوران میں اچانک مجھے “بن باسی دیوی” کا خیال آ گیا۔ میں نے کہا: “صبوحی صاحب، بن باسی دیوی میرا پسندیدہ ناول ہے۔ آپ نے اس کے مصنف کا ذکر نہیں کیا نہ یہ بتایا کہ اصل میں ناول کا کیا عنوان تھا۔ صبوحی صاحب صاف بات کرتے تھے۔ کہنے لگ: “سچ یہ ہے کہ مصنف کا نام اب مجھے بھی یاد نہیں۔ ہاں، ناول کا نام”The Bison of Clay” تھا۔”ناول کا پتا تو چل گیا لیکن انگلستان اور امریکہ میں ہر سال ہزار ہا ناول شائع ہوتے ہیں۔خدا جانے یہ ناول کب چھپا تھا اور اب کسی طرح دست یاب بھی ہو سکے گا۔بات آئی گئی ہو گئی۔اصل متن تک رسائی حاصل کرنے میں کوئی دل چسپی نہ رہی۔یہ خیال دل میں ضرور جاگزیں رہا کہ اس ترجمے کو دوبارہ چھپنا چاہیے۔دو ڈھائی سال پہلے آصف فرخی سے ملاقات ہوئی، اشرف صبوحی کا ذکر آیا اور “بن باسی دیوی ” کا بھی۔آصف نے اتفاق کیا کہ ناول دوبارہ شائع ہونا چاہیے۔کہنے لگے کہ “افسوس، یہ معلوم نہیں کہ انگریزی میں ناول کس نے لکھا تھا اور اس کا عنوان کیاتھا۔”میں نے کہا کہ “عنوان صبوحی صاحب نے بتا دیا تھا لیکن مصنف کا نام انھیں بھی یاد نہ رہا تھا۔” ناول کا انگریزی نام سن کر آصف نے بڑے وثوق سے کہا کہ “اب مصنف کا پتا بھی چل جائے گا۔” اس وقت تک مجھے اِنٹرنیٹ (جسے میں اندر جال کہتا رہتا ہوں) کے کمالات کا ٹھیک طرح سے اندازہ نہ تھا۔ آصف کراچی چلے گئے اور چند روز بعد انھوں نے مصنف کے بارے میں ضروری معلومات بھجوا دیں۔ میرا خیال ہے کہ انھیں یہ تفصیلات تلاش کرنے میں دس بارہ منٹ سے زیادہ نہ لگے ہوں گے۔
پہلا انکشاف یہ تھا کہ ناول فرانسیسی سے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ فرانسیسی مصنف کا نام میکس بیگواں (Max Begouen) ہے۔ بیگواں کے والد تولوز یونیورسٹی میں قبل از تاریخ علوم کے پروفیسر تھے۔ بیگواں کو بھی سائنس داں بتایا گیا ہے گو یہ صراحت موجود نہیں کہ وہ سائنس کے کس شعبے سے تعلق رکھتا تھا۔ قصہ مختصر، بیگواں نے لڑکپن میں اپنے دو بھائیوں کے ہم راہ، فرانس اور ہسپتانیہ کی سرحد پر واقع پری نیز نامی کو ہی سلسلے کی ترائی میں، وہ غار ڈھونڈ نکالے جو اب اس بنا پر مشہور ہیں کہ ان کی چھان بین سے کہن سنگی دور کے انسانوں کے رہن سہن کے بارے میں مفید معلومات ہاتھ آئیں۔ دیواروں پر بنی تصویریں بھی ملیں، سفالی مجسمے، ہتھیار، اوزار اور برتن بھی دست یاب ہوئے۔ یہ 1912ء کی بات تھی۔ اس کھوج نے بیگواں کے تخیل کو مہمیز لگائی ہو گی اور آخر اس نے 1925ء یا 1926ء میں Les Bisons d’ argile کے نام سے ناول لکھ ڈالا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔