ایک سفر کی روداد

یہ تحریر 690 مرتبہ دیکھی گئی

کسی سفر نامے میں پڑھاتھاکہ جون کے مہینے میں دہلی سے عظیم آبادکی طرف آنادھوپ سے دھوپ تک کاسفر ہے۔دھو پ بھی ایسی کہ کنوئیں کاپانی سائے کاطلب گار ہو۔لیکن دہلی میں ابھی دھوپ اتنے گہرے سائے کی طلب گارنہیں تھی۔یہاں جون کی گرمی مارچ اپریل کی گرمی معلوم ہوتی تھی۔درمیان میں اسے اپنے وقت کاخیال آتاتوکچھ سنبھالالیتی۔پھر بھی جون کی دھوپ کہیں دور دراز علاقے کی طرف جاتی ہوئی محسوس ہوئی۔یہ احساس اس شخص کانہیں ہوسکتاجس نے بہت فاصلے سے دھوپ اور سائے کو دیکھاہو۔کوئی آواز دے رہاتھاکہ جون کامہینہ آگیا اور دہلی کے اوپر کالے بادل لہراتے ہیں۔اور کچھ ہلکی اور تیز بارش فضاکونہ توگرم رہنے دیتی ہے اور نہ سرد۔ایک جگہ کی دھوپ کیادوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے؟۔ہر جگہ کی اپنی دھوپ اور اس کی اپنی بارش ہے۔اس حقیقت کے باوجودکسی کی آمددھوپ بن جاتی ہے یابارش۔ایک تپتی دوپہراپنے ساتھ کتنے پسینوں کو لاتی ہے۔پیشانی سے پسینہ پوچھناکتناخوبصورت عمل ہے۔محسوس ہوتاہے کہ جیسے کوئی معرکہ سرکرلیاہو۔بعض پیشانیوں پرپسینے آنسوؤں کے قطرے معلوم ہوتے ہیں۔حرارت تو دونوں میں ہے۔دونوں کی نمود کارشتہ داخل سے ہے۔ہربنے منہ سے کے ساتھ پسینے سے تر انسانی جسم کاخیال آتاہے لیکن آنسوکاقطرہ پسینے سے کتنامتبرک اور پاکیزہ ہے۔پسینے کے قطرے کو موتی کہنے کی غلطی کس نے کی تھی معلوم نہیں۔سودانے کہاتھا۔
مجھے پسینہ جو مکھ پہ تیرے دکھائی دے ہے تو سوچتاہوں
یہ کیوں کہ سورج کی جوت آگے ہر ایک تارہ چھٹک رہاہے۔
کسی سفرنامے میں لکھاتھاکہ آپ دھوپ میں پسینہ سکھائیے مگر اسے موتی یاتارہ نہ کہیے۔سفرنامے لکھنے والے کوسوداکے شعر کاخیال نہیں آیایااس کی نگاہ سے سوداکاشعرنہیں گزرا۔موتی توآنسو ہی ہو سکتاہے۔آنسو پوچھناپسینے کے پوچھنے سے کتنامختلف عمل ہے۔آنکھیں جو دریابن جاتی ہیں ان کے لیے ایک دامن اور ایک آستین کافی ہے۔دل کے راستے آنے والی کوئی نادیدہ شئے آنسوؤں کی صورت دکھائی دیتی ہے۔
’کبھی آنسو نے کہاتھااورمیں نے سنانہیں تھامجھے آنسو بننے میں کتناوقت لگتاہے اور آنسو بننے کی کہانی وہ نہیں ہے جو بیان کی جاتی ہے۔اسے آنسوکے سواکچھ اور بھی کہاجاسکتاہے۔‘پسینے نے آنسو کی آواز اور اس زبان کوسمجھااور سناہوگا۔پھر خیال آیاکہ آنسو کاہم زبان پسینہ نہیں ہوسکتا۔یہ خیال دراصل اس خیال کانتیجہ ہے جس نے پسینے کو بدبو اور آلائش کی صورت میں پیش کیا۔آنسو نے کبھی پسینے کو حقارت کی نظرسے نہیں دیکھا۔آنسو کاکوئی وقت اور موسم نہیں ہے۔
جُلیناکی ریڈلائٹ پر ایک غریب کی آنکھیں ہمیشہ آنسوؤں سے بھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔کوئی بھی موسم ہوریڈلائٹ کے ایک کنارے پر آنے جانے والے کوامید بھری نگاہ سے دیکھتاہے۔نہ کچھ بولنااور نہ کچھ اشارہ کرنا۔وجود جب سراپاسوال بن جائے تو کچھ بولنے کی ضرورت بھی کیاہے۔اس شخص کو دیکھتے ہوئے کئی برس ہوگئے۔وہ جب گاڑیوں کے قریب جاکر ہاتھ جوڑتاہے تو شیشے کاآدمی وہ نہیں رہتاجو پہلے تھا۔کبھی شیشہ نیچے آجاتاہے اور کبھی اپنی اصل حالت میں۔شیشے کے آدمی کو لگتا ہے کہ کسی کے دل کاشیشہ ٹوٹ گیاہوگا۔یہ اس کی بھول ہے۔اسے نہیں معلوم کہ اس ریڈ لائٹ پر غریب نے کتنے شیشوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھاہے۔انہیں ٹوٹے ہوئے شیشوں سے اس نے زندگی اور موت کے مفہوم کو سمجھاہے۔شیشے کاآدمی بمبئی میں پہلی باراردو کے ایک شاعرکو دکھائی دیا۔یہ اور بات ہے کہ شیشے کاآدمی دہلی میں بھی کچھ کم نہیں تھا۔اس غریب سے زیادہ شیشے کے آدمی کو کس نے دیکھاہوگا۔وہ عام طورپر شیشے کے آدمی کی طرف جاتاتھا۔رکشے پر بیٹھے ہوئے لوگ اسے اپنی طرح برہنہ اور آوارہ دکھائی دیتے۔لیکن رکشے پر بیٹھنے والے کو اس کی خبر کہاں تھی۔پھر اس کے جسم کے کپڑے قد سے زیادہ تھے جوکئی طرف سے اپنی برہنگی کااعلان کرتے۔میں اسے شیشے کاآدمی لگتاتھااسی لیے وہ شاید میری طرف آجاتاتھا۔جلیناکی ریڈ لائٹ کبھی طویل معلوم ہوتی تو کبھی مختصر۔میں نے کئی مرتبہ یہاں کی ریڈ لائٹ کو اس کے چہرے کی روشنی میں دیکھاہے۔سبز رنگ کاکپڑااس کے کاندھے پر گرین لائٹ سے کم نہیں معلوم ہوتاتھا۔ہلکی سفید اور سیاہ داڑھی کے ساتھ اس کاچہراشام ہوتے ہی کچھ اور چمک اٹھتاتھا۔لیکن ابھی شام نہیں آئی تھی۔ابھی ایک بج رہاتھااور اس کاوجود پسینے میں نہایاہواتھا۔گرمی کاموسم شاید بارش کے موسم جیساتھا۔وجود کی بارش جون کی آگ برساتی ہوئی دھوپ کاانتظار کرتی ہے۔اس کی آنکھوں کاکوئی رشتہ موسم برسات سے ہے یانہیں میں نہیں بتاسکتا۔یہ ساری باتیں ریڈ لائٹ پر پہنچنے سے پہلے میرے ذہن میں گردش کر رہی تھیں۔اوٹورکشاریڈلائٹ پر رکااور نظراسے تلاش کرنے لگی۔وہ جب تک میری طرف آتالال بتی ختم ہوچکی تھی اوراس کے کاندھے پر رکھاسبز کپڑافضامیں لہراتاہوامحسوس ہوا۔اچٹتی سی نظریہ کہتی ہے کہ اس کاجسم پسینے سے شرابور تھا۔اسے دیکھ کر میں نے دوبارہ غور کیااور اس وہم سے خود کو نکالنے کی کوشش کی کہ جون کامہینہ مارچ اپریل کی طرف آگیاہے یامارچ کی تاریخیں جو ن کی تاریخوں میں مل گئیں ہیں۔ایک مرتبہ کئی سال کے کیلنڈر کو دیوار پر زمانی ترتیب سے سجانے کے بعد ان کی طرف دیکھاتوتاریخیں ایک جیسی معلوم ہوئیں۔یہ ایک مشکل اور صبر آزماعمل تھاجس کی سزانہ جانے کب تک ملتی رہے گی۔دن اور مہینے کے نام ہٹادیجیے توکون سی دولت حاصل ہوگی۔لیکن یقین ہے کہ قیامت آجائے گی۔قیامت تو ناموں کی موجودگی کے باوجود آچکی ہے۔میں ریڈ لائٹ کراس کرچکاتھالیکن محسوس ہواکہ جیسے دوبارہ میں وہیں آگیاہوں اور فضامیں لہراتاہواسبز کپڑااسی ریڈ لائٹ کی طرف لیے جارہاہے۔گزرتاہواوقت ٹھہرا ہواوقت ہے یاگزراہواوقت۔ٹرین کے کھلنے کاوقت قریب ہورہاتھا۔اس ریڈ لائٹ کے آگے ایک مکان بھی تو ہے جہاں میراآناجاناتھا۔ادھر سے گزرتے ہوئے وقت کامفہوم بدل جاتاہے۔سچ کہوں تووقت کو اس روشن مکان میں قیام پذیرایک روشن شخصیت کے وسیلے سے سمجھاتھاجہاں اندھیرے اور اجالے ایک ساتھ وقت کو کچھ اور بنادیتے تھے۔اب اس طرف آنکھ اٹھاکردیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔گھڑی کی طرف دیکھاتو دو بج چکاتھاپھر کسی اور سے پوچھاکہ کتناوقت ہواہے۔ایک نوجوان نے مسکراتے ہوئے کہاکہ آپ کو کتناوقت چاہیے۔اس ایک جملے میں میراگزراہواوقت بھی شامل ہوگیاتھااور وہ وقت بھی جو آنے والاتھا۔نوجوان میری طرف مسکراکردیکھتارہا۔یہ لمحہ بہت مختصر تھا۔میں صرف اتناکہہ سکاکہ یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔میری گھڑی کاوقت کچھ تیز تھااور ٹرین کو اپنے وقت ہی پر پٹنہ کے لیے روانہ ہوناتھا۔دھوپ بہت ہلکی تھی اور میں پھر یہ سمجھنے لگا تھاکہ جون کا مہینہ کچھ پیچھے آگیا ہے یا میرا احساس کچھ وقت سے آگے نکل آیا ہے۔میں گردش ایام بھی تو نہیں کہ سب سے آگے نکلنے کادعوی کروں۔
توہی اے گردش ایام ہے سب سے آگے
تجھ سے آگے کوئی جاتاہے تو ہم جاتے ہیں
یادوں کاایک سیلاب ساامڈنے لگا۔یاد آیاکہ اسی روشن چہرے والے نے ایک غزل سنائی تھی جس کی ردیف دھوپ تھی۔شاعر کاتعلق عظیم آباد سے تھا۔مگر یہ دھوپ توعظیم آباد میں لکھنؤ سے آئی تھی۔اس میں وہ شد ت اور حرارت نہیں تھی جو عظیم آباد میں اسے حاصل ہوئی۔دھوپ ناسخ نے بھیجی تھی اور شاد نے اسے فکر واحساس کے مختلف پہلوؤں کاحامل بنادیا۔پھر یہ ہواکہ عظیم آباد میں دھوپ نے وہ رنگ دکھایاکہ امداد امام اثر اور شوق نیموی کے یہاں بھی دھوپ چمکنے لگی۔غزل میں زمین کاچاہے جو بھی مفہوم ہو دھوپ کو زمین تو عظیم آباد میں ہی ملی۔ناسخ اسے آسمان سے لائے تھے۔میں نے تو سناہے کہ وہاں زیادہ تر زمینیں آسمان ہی سے آئیں تھیں۔زمینیں آسمان سے آنے کے باوجود زمینی بوباس سے خالی ہوں تو انہیں آسمانی ہی کہناچاہیے۔
ریڈ لائٹ کاغریب دہلی کی تپتی ہوئی زمین اور تپتے ہوئے آسمان کے نیچے نہ جانے کب سے کھڑاہے۔اس راستے سے بہت بار گزرناہوالیکن آج کاگزرناکچھ اور تھا۔اس کے بھیگے ہوئے جسم اور بھیگی ہوئی پیشانی سے موسم کو سمجھنے میں دھوکہ ہوا۔اس کے آس پاس کاموسم جو بھی ہو اور جیسابھی ہواسے میں نے اپنااور اپنے وقت کاموسم سمجھ لیا۔
آنسو کے مرتبے اور اس کی پاکیزگی تاخیال پسینے کے ساتھ تو نہیں آسکتامگر اس جبر کو کون توڑے۔ریڈ لائٹ کے اس غریب کاپسینہ یوں بھی ایک معنی میں آوارگی اور خانمائی کاپسینہ ہے۔شیشے کے آدمی کو کون بتائے کہ باہر کی دنیاکسی کے لیے کتنی بڑی بادشاہت ہے۔کھلے آسمان کے نیچے جسم سے نکلنے والاپسینہ کتنافعال اور جلد باز ہے۔ جو دھوپ پسینے کو لاتی ہے وہ پسینے کو سکھابھی دیتی ہے۔بدن سے نکلنے والاپسینہ نکلنے سے پہلے سوکھ جاتاہے۔شیشے کاآدمی ایک ٹھہری ہوئی زندگی کے ساتھ ہے۔سناہے کہ بعض لوگوں کو پسینے نہیں آتے اور وہ بیمار ہو جاتے ہیں۔وہ پسینہ ہی کیاجو جسم سے باہر نہ آئے۔مجھے پسینہ نہیں آتایہ بات کسی مریض نے کہی تھی یابادشاہ نے۔اس میں ایک غرور شامل تھا۔پسینے کو چھپانے والے لوگ کتنے بزدل اور کمزور ہوتے ہیں۔مزدور وں کی برادری دنیابھر میں ہزار فر ق کے باوجود خصوصیات کے لحاظ سے ایک جیسی ہے۔جب پہلی مرتبہ کارخانے میں مزدوروں کے لیے ایک خاص قسم کاجوتابنایاگیاتولوگ خوفزدہ ہوگئے۔بعض گھروں میں آج بھی کوئی ایساجوتاآجائے توکہاجاتاہے کہ مزدور کاجوتاگھرلے آئے۔اس جوتے کی خوبی یہ ہے کہ اس کے آگے کاحصہ بلکہ ساراحصہ بہت مضبوط ہوتاہے جیسے کوئی پتھر ہو۔پاؤں کی انگلیاں جوتے کے آخری سرے سے پہلے ہی رک جاتی ہیں۔ریڈ لائٹ کاغریب ایساکوئی مزدور نہیں تھا۔اسے صرف ایک چپل کی ضرورت تھی مگر وہ بھی اس کے پاؤں نے گوارانہ کیا۔زمین سے لگے ہوئے پاؤں کتنے زمینی اور کتنے کھردرے ہو جاتے ہیں۔یہ پاؤں بارش کے پانی میں آسانی سے بھیگ جاتے ہیں اور تپتی ہوئی زمین پر آبلوں کو بھرنے کاموقع نہیں دیتے۔ ایک دومرتبہ اسے شام کے وقت ریڈ لائٹ کی روشنی میں تلوے کوکھجاتے ہوئے دیکھا۔ٹرین کھلنے والی تھی اور میراسامان ٹرین کے اندر رکھاجاچکاتھا۔لیکن ایسامحسوس ہواکہ جیسے میں جُلیناکی ریڈ لائٹ پر کھڑا ہوں اور ایک موسم ہے جو عظیم آباد میں میرا منتظر ہے۔