نصرت کا علم بلند ہے

یہ تحریر 694 مرتبہ دیکھی گئی

نصرت کا علم بلند ہے
نام کتاب : “بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں”
(لندن )- تحریر: مظہراقبال مظہر
نصرت نسیم نے اس کتاب کا پہلا لفظ لکھا تو حرف ِتشکر۔ ابتدا اس ذات کی حمدو ثنا سے کی جس نے قلم و قرطاس سے ان کا ہی نہیں بلکہ رہتی دنیا تک ہر تخلیق کار کا ناطہ جوڑنا ہے۔ دل شکر کے جذبات سے لبریز اور سراپا عجز و انکسار؛ یہ ہے ابتدائی تعارف اس خوبصورت شخصیت کا جس کے قلم سے لکھی گئی کتاب”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں” میرے سامنے ہے ۔ پبلشرپریس فار پیس فاؤنڈیشن اور سربراہ ادارہ پروفیسر ظفر اقبال نے کتاب چھپنے سے بہت پہلے برقی نسخہ بھیج کر کتاب کے اولین قارئین میں شامل ہونے کا موقع فراہم کر دیا تھا ۔
اپنے ابتدائی تاثرات کو میں نے کتاب پڑھنے کے فوراً بعد ہی محفوظ کر لیا تھا کہ خوشبو سے محظوظ ہونے کا لطف اس وقت دوبالا ہو جاتا ہے جب وہ ماحول میں رچ بس جائے۔ بہت بڑے ادیبوں کے تبصرے اس کتا ب کی اشاعت کا حصہ بن چکے ہیں جو اسے سندِ قبولیت عام کا درجہ دیتے ہیں۔ محترمی پروفیسر وجاہت گردیزی صاحب کا تفصیلی تبصرہ سامنے آیا تو اندازہ ہوا کہ خوشبو کوہاٹ سے رسالپور کے راستے کشمیر کی فضاؤں تک پھیل گئی ہے۔
جب مصنف کا قلم اور کینویس اس کی قوس قزح کے رنگوں میں نکھری حیات سے ہوتا ہوا ذات کے بیکراں سمندر تک پھیلا ہوا ہو تو مجھ ایسے ناپختہ اور نوآموز لکھاری صرف حرف ِ تشکر ہی ادا کر سکتے ہیں کہ ہم نصرت جیسے ادیبوں کے عہد میں جی رہے ہیں ۔ ایسی باکمال شخصیات اور ان کے قلم سے لکھی گئی اعلیٰ ادبی اوصاف کی حامل تخلیقات سے بحیثیت قاری ہی تعلق ہی کسی سرمایے سے کم نہیں۔
نصرت نسیم کا تعلق رسیلے امرودوں کی سرزمین کوہاٹ سے ہے۔ وہ “بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں” نام کا ایک ایسا شیریں پھل کاشت کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں جس کا ذائقہ بیان کرنے سے زیادہ لطف اٹھانے کے قابل ہے اور چاشنی طویل عرصے تک گلستان ِ اردو کے قارئین کے مشام جاں کو تر کرتی رہے گی ۔
خدائے بزرگ و برتر ہر تخلیق کار کے جوہر ِتخلیق کا منبع ہی نہیں بلکہ اس کی رگِ جاں سے بھی قریب تر ہے ۔ نصرت کا قلم ہی نہیں بلکہ لفظ برتنے کا ہنر بھی اس مصور ِ اولی ٰ کی صنّاعی و کاریگری پر یوں سجدہ ریز ہےکہ فہرست عنوانات کی جگہہ الحمد للہ لکھ دیا یہاں لکھاری وقاری دونوں یک زباں سراپا تشکر ہو جاتے ہیں۔ ان کے پیش لفظ کا ہر لفظ امرت رس گھولتا محسوس ہوتا ہے۔ تشکر کے مہان جذبوں کو مہین لفظوں کی آب دار تہہ چڑھانا نصرت نسیم کا ہی خاصہ ہے۔اور جب انہوں نے حرفِ سپاس لکھا تو کسی کو نہیں بھولیں۔ زندگی کوزندگی بنانے والے رشتے، والدین، اساتذہ اور یہاں تک کے اپنے بچپن کے قلمی نام کو قبولیت بخشنے والی شفیق استاد کے پیار بھرے جملوں کو ہدیہ سپاس قلبی طراوت کے لیے ضروری سمجھا۔ سرحدی صوبے کی بے رنگ فضا میں افسانوی ادب کا پہلا عطردان رکھنے والی فہمیدہ اختر کی آس کو یاد بنایا تو لفظ یاسمن میں ڈھل گئے ۔علم و ادب کی ان معاصر و معتبر ہستیوں کو تو بطور خاص ہدیہ شکر بھیجا جو اس کتاب کے لکھنے میں مہمیز ثابت ہوئیں۔ یہ سب تبھی ممکن ہے جب تشکر و ممنونیت کے اُتھل جذبوں سے سرشار ایک دل احسان اتارنے کے لیے بے تاب ہو۔
خود نوشت دیکھنے میں آسان اور برتنے میں بڑے دل گردے کا کام ہے۔ انسان ان راہوں پر دوبارہ پاپیادہ نکلتا ہے جہاں کبھی سنگ و خار اور کبھی سرو چمن و بوئے سمن ہمراہ تھے۔ بقول مصنفہ ” یادوں کے چراغ لے کر ماضی کی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے ایسے ایسے واقعات روشن ہوئے کہ کبھی تو دل میں چراغاں سا ہوگیااور کبھی غم کی اتھاہ گہرائیوں اور اندھیروں میں اترگئ۔آنسوؤں کی جھڑی سی لگ گی۔” آگے چل کر لکھتی ہیں کہ ” خوشیوں کے پھول بھی ہیں تو آنسوؤں کے ہار بھی۔”
نصرت نے اپنی خود نوشت میں جس نسل کے پاکستانیوں کی ترجمانی کی ہے انہوں نے علم و ہنر کو دنیا کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ ذات کو جلا بخشنے کا ماخذ جانا تھا۔ نصرت کا قلمی سفر سادگی، نفاست، بے ساختگی، وارفتگی، والہانہ پن، اپنائیت ، سیدھے سادھے انسانوں کے سچے اور سُچے جذبوں کی ترجمانی کا سفر ہے۔ جب مصنفہ نےقلم و دوات سے اپنا رشتہ جوڑا تو اس وقت علم سکھانے والا انسان مجسم شفقت اور سیکھنے والا عرفان ذات کا طالب تھا۔ رنگ بیگوں اور کپڑوں پر نہیں ذہنوں پر نقش ہوتے تھے اور ٹاٹ پر بیٹھ کر بھی من اُجلے اور روح سرشار رہتی تھی ۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ تب ” نہ کوئی طبقاتی تقسیم اور نہ کوئی غرور و تکبر تھا ‘‘۔ اور پھر نصرت کو جب ” اردو پڑھنا آگئی تو اس کے ساتھ ہی مسرتوں کے کئی در وا ہوگئے”۔ گویا زندگی کے رنگوں کو قریب سے دیکھنے کا پہلا دروازہ ہی خواندگی کا راستہ تھا نہ کہ آج کی نسل کا ” خواہشوں کا واویلا” ۔
یہ کتاب نہیں بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ کسی بھی سماج میں تبدیلی ناگزیر ہے ۔ مثبت تبدیلی ترقی اور دانش میں اضافے کی جانب ایک قدم ہے۔ مگر وہ ترقی جو سماجی رویوں، فکری جہتوں اور معاشرتی اقدار میں آتی ہے وہ چاند ستاروں سے تو اوجھل نہیں ہوتی ذہنوں سے اوجھل ضرور ہو سکتی ہے ۔ اگر اسے محفوظ نہ کیا جائے تو آنے والی نسلوں کو تہذیبی ورثہ منتقل نہیں ہو پاتا۔نصرت کا یہ بڑا احسان ہے کہ انہوں نے صوبہ سرحد ( جس دور کی باتیں انہوں نے لکھی ہیں بہر طور اسے صوبہ سرحد ہی کہتے تھے اور کسی کو اعتراض بھی نہیں تھا ) کی ثقافت کو اپنے قلم سے زندہ کر دیا ہے۔
یہ خود نوشت ثقافتی و معاشرتی تبدیلیوں کی عکس بندی کے ساتھ سماجی بیماریوں کی تشخیص کا کام بھی بخوبی سر انجام دے رہی ہے۔ ہمارا بچپن کیا تھا اور اب یہ کیا ہو گیا ہے ؟ اس کا ذکر یوں ملتا ہے “۔ کپڑے بے حساب، کھلونے بےشمار،مہنگے برگر اور پِیزے، طرح طرح کی آٗئس کریمیز مگر بچے پھر بھی اکثر نا خوش ،بور ہو رہے ہیں کی تکرار۔بچوں میں نفسیاتی مسائل میں اضافہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ پہلے کم سہولتوں میں بچے خوش باش نظر آتے اور اب شاید چیزوں کی کثرت نے ان کی قدر و قیمت گنوا دی ہے۔”
خودنوشت پر ایک الزام یہ لگتا رہا ہے کہ یہ واحد صنف ادب ہے جو لکھاری کو من گھڑت باتوں پر اکساتی ہے۔ مگر نصرت کی کہانی وہ کہانی نہیں جو من گھڑت ہو۔ یہ قصے کہانیوں اور پرستان کی باتیں نہیں بلکہ جیتے جاگتے ، کھاتے پیتے ، انسانوں کی بپتا ہے۔یہ کتاب بار بار پڑھے جانے کے قابل ہے۔ یہ جس نسل کی داستان ہے اسے وقت کی قید میں مقید ہو جانا اچھا لگتا تھا۔اس کا گزرتا ہوا ہر لمحہ زندگی سے بھرپور ہوتا تھا۔ نصرت لکھتی ہیں ” کاپی پر تاریخ لکھتے لکھتے تھک جاتے،سال ختم ہونے میں نہ آتا۔اب تو جیسے وقت کو پَر لگ گئے ہیں۔”
اسی طرح شائستگی، وضع داری اور پردہ د اری محض اخلاقی فرائض نہیں بلکہ خوبصورت تہذیبی رنگ لیے ہوئے تھی۔ ” اپنے شہر میں کہیں جانا ہوتا تو تانگے پر پردے لگائے جاتے”۔ نصرت کے خیال میں جیسے روایات معدوم ہو رہی ہیں ، ایسے ہی ہمارے کھانے ، پینے ، پہننے اور اوڑھنے کے اطوار بھی بدل رہے ہیں۔ اب خور د و نوش کے لوازمات کی فہرستیں طویل ہوتی جا رہی ہیں مگر وہ سواد اور مزہ جو وہ گرم گرم دانے گڑ کی ڈلی کے ساتھ کھاتے اور چائے کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے لیتی تھیں اس ذائقے کی حلاوت آج صرف چشم تصور کے راستے ہی محسوس کی جا سکتی ہے۔
بھولی بسری یادوں کے نہاں خانوں سے نصرت وہ خزینے نکال لائی ہیں جو ہم سب کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کے عکس افگن دلفریب نظارے ہیں۔ قاری ہر اس منظر سے لطف اٹھاتا ہے جس نے لکھاری کے دل و ذہن پر اپنے نقوش ثبت کر رکھے ہیں۔ اس آپ بیتی کے اندر جگ بیتی کو پڑھتے ہوئے بارہا آپ کسی منظر، واقعے ، کہانی اور موڑ پر خود بھی کہیں سے جھانک رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی نوجوان کوچوان کی مریل گھوڑی کے گھٹنے ٹیکنے پر سراپا احتجاج تو کبھی کسی ٹرین کی بوگی میں دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں کر رہے ہوتے ہیں ۔ یہ کسی بھی ادیب کے قلم کی وہ تاثیر اور معراج ہے جو بہت کم لکھنے والو ں کو نصیب ہو تی ہے کہ قاری کا ذہن ہی نہیں دل بھی تحریر کے ساتھ اچھلنے ، مچلنے لگے۔ نصرت نسیم نےاپنی یکتا و بے مثال یاداشتوں کو حافظے کی قوت سے یاد نگاری کے ایسے قالب میں ڈھالا ہے کہ کہانی، ناول، افسانہ، سرگزشت، خود نوشت، جگ بیتی ، آپ بیتی ، سفر نامہ اور دیگر بےشمار اصناف کے رنگ جا بجا بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔
کتاب کی اشاعت کا حصہ بننے والے تبصروں میں نصرت کے کام کے حوالے سے نسائی ادب کی اصطلاح کا استعمال بھی ہوا ہے۔ اگرچہ نصرت کی خود نوشت میں جا بجا بکھرے واقعات میں عورت کے عمومی خاندانی مقام و مرتبے ،طرز فکر،، مشاغل، دلچسپیوں ، محسوسات ، اور خواہشات کا تذکرہ بار بار ملتا ہے یہ تصنیف کسی بھی لحاظ سے کلی طور پر نسائی رنگ میں رنگی ہوئی نہیں ہے۔ بلکہ ہر لحاظ سے خود نوشت کے بڑے قلم کاروں کی صف میں جگہہ بناتی ہوئی نظر آتی ہے۔ آپ مرد کی دوربین آنکھ سے معاشرے کو دیکھیں یا عورت کی باریک بین نگاہ سے ، ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اس پر نظر ڈالیں جو ہمیں دکھایا جا رہا ہے ، منظر نگاری کیسے ہوئی ہے ،مشاہدہ معروضی انداز لیے ہے یا معکوسی طرز استدلال۔آپ بیتی کی جزئیات نگاری اپنی ہی ذات کا ایکسرے ہوتا ہے۔ اگر ہم آپ بیتی کے ایکسرے کو پڑھنا جانتے ہیں تو ہمیں مصنفہ کے خیال کی تال سے اپنی تال ملانا ہوگی اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے ارد گرد کا ماحول ، رہن سہن، طرز ِ فکر اور سوچ ہی نہیں بدلی ہے بلکہ انسان کے اندر کا انسان بھی بدلا ہے۔باہر اجالا بڑھا تو اندر اجالا سمٹنے لگا ہے۔ باہر کی زندگی چکاچوند سے بھرپور ، ہفت رنگی ہوئی تو ذات کی انجمن شوخ رنگی بھول گئی ۔
اور سب سے زیادہ خوبصورت بات یہ ہے کہ انہوں نے کہیں بھی احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا۔ زبان و بیان، ادائیگی کلمات، تشبیحات و استعاروں کے استعمال اور ذاتی مشاغل و مصروفیات کے تذکرے تک میں حفظ مراتب، مروت، وضع داری ، خاندانی وجاہت ، علمی گھرانے سے وابستگی اور روشن خیال والدین کی حیاداری کا پاس و لحاظ بھی رکھا ہے اور کہیں بھی اپنی علمیت، مرتبہ و حیثیت، ہنر مندی و یگانگی کا چرچا نہیں کیا۔ جو واقعہ جیسا تھا ، جو برتاؤ جیسا تھا اور جو مقام جیسا تھا ویسا ہی سیدھے سادھے مگر دل پر اثر کرنے والے لفظوں میں یوں بیان کیا ہے کہ کتاب میں دلچسپی اختتام تک برقرار رہتی ہے۔ مصنفہ کو مبارک ہو کہ ان کا علم بھی بلند ہوچکا ہے اور قلم بھی بلندیوں کو چھُو رہا ہے۔
از قلم مظہر اقبال مظہر
لندن