بچوں کی الف لیلہ: سند باد جہازی

یہ تحریر 516 مرتبہ دیکھی گئی

بچوں کی الف لیلہ اور محمد سلیم الرحمن کا چڑھایا ہوا اُردو رنگ۔ محمد سلیم الرحمن اور بچوں کا ادب، قاری تھوڑی دیر کے لیے رُکتا ہے۔ مگر ٹھیریے اس توقف کی کوئی ضرورت نہیں۔ بچوں کا ادب سلیم صاحب کا نیا شوق ہرگز نہیں۔ وہ اس کتاب سے پہلے بچوں کے لیے دو ترجمے کر چکے ہیں۔ ایچ جی ویلز کے ناول “The Invisible Man”کا ترجمہ ”غیبی انسان“ اور رائیڈرہیگرڈ کے ناول “King Solomon’s Mine”کا ترجمہ ”سلیمانی خزانہ“ کے نام سے۔ گویا بچوں کا ادب اُن کا پُرانا شوق ہے۔
ہمارے لکھنے والے بچوں کے لیے نہیں لکھتے۔ پتا نہیں کیا وجہ ہے۔ تھوڑا غور کریں تو کچھ باتیں فوری طور پر سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی بات تو یہی کہ ہمارا پبلشر لکھاری کو پیسا دینا سراسر گھاٹے کا سودا سمجھتا ہے۔ بھلا اس کا کیا فائدہ۔ اُس کا یہ احسان کیا کم ہے کہ وہ آپ کی نگارشات چھاپ کر آپ کی شہرت کا سامان کر رہا ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ ادیب کا رائلٹی طلب کرنا بد مذاقی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس لیے کوئی بچوں کے لیے لکھتا بھی نہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ بچے اس طرح لکھاری کی پذیرائی نہیں کر سکتے جس طرح بڑے کرتے ہیں۔ آخر وہ لکھنے والے کے لیے بڑے بڑے جلسے، کانفرنسیں اور انٹرویوز چھاپنے سے تو رہے۔ اور بچے تو تاریخ ادب اُردو بھی نہیں لکھتے جس میں بڑے بڑے القابات سے مصنف موصوف کو نوازا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ لکھاری نامقبولیت کے خوف سے بچوں کے ادب کی تخلیق گھاٹے کا سودا سمجھتے ہیں۔ کچھ اخبارات اور رسائل اور چند لکھنے والے ایسے ضرور ہیں جو آج تک یہ خسارے کا کام کرتے آرہے ہیں۔
”الف لیلہ“ کتنی عجیب وغریب کتاب ہے۔ حیرتوں سے بھری ہوئی۔ اس کتاب پر اور باتیں کرنے سے پہلے ایک روایت ذہن میں رہنی چاہیے۔ اس روایت کو محمد کاظم صاحب نے اپنی کتاب ”عربی ادب میں مطالعے“ میں درج کیا ہے: کہانی یہ ہے کہ اس کتاب یعنی الف لیلہ کا فرانسیسی مترجم آنتوان گیلان جب قسطنطنیہ کے ایک کتب خانے میں کتابیں تلاش کر رہا تھا تو اُس کی نظر ”سند باد جہازی“ پر پڑی۔ اُسے یہ کتاب بہت پسند آئی۔ اُس نے اس کتاب کے کچھ حصے فرانس جا کر ایک قسط وار سلسلے میں ترجمہ کر کے چھاپنے شروع کر دیے۔ یہ ترجمے بچوں میں اتنے مقبول ہوئے کہ جب کسی قسط کے چھپنے میں ناغہ ہو جاتا تو بچے اُس کے کمرے کی کھڑکیوں پر پتھر پھینک کے اُسے یاد دلاتے کہ اگلی قسط کب چھپے گی۔ فرانس میں اس کتاب کی مقبولیت کا یہ ایک واقعہ تھا۔ ہم ہر کام میں مغرب کی تقلید کرنا چاہتے ہیں۔ مگر کیا وجہ ہے اپنے ہاں بچوں کو اس روش یعنی ادب کی چاٹ سے بچائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اُنہیں سائنس دان بنانا چاہتے ہیں۔ یہ نصیحتیں کرتے نہیں تھکتے کہ جنوں پریوں سے بھری ہوئی کہانیوں کا حقیقی زندگی سے کیا تعلق؟ یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے۔ بڑی عمر کے نتائج بچوں پر تھوپنے کا مقصد؟ ٹالکین، جے کے رولنگ اور لیوس کیرول کے ناول بچوں کے لیے ضرر رساں ہوتے تو مغرب کبھی اپنے بچوں کو یہ خرافات پڑھنے کی اجازت نہ دیتا۔ یہ کہانیاں تو انسانی تخیل کو جلا بخشتی ہیں۔
”سند باد جہازی“ تخیل کو زرخیز بنانے والی کتاب ہے۔ ایسی دلچسپ کہ تان نہیں ٹوٹتی۔ سفر کے بعد سفر، ہر سفر تنوعات سے بھرا ہوا۔ حیرت ہی حیرت۔ ہر دفعہ سند باد مرتے مرتے بچتا ہے۔ جہاں جہاں سند باد کا گزر ہوتا ہے انسانی تخیل بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ یہ داستان ختم نہ ہو۔ ذہن سند باد کی دکھائی ہوئی دنیا میں دیر تک رہنا چاہتا ہے۔ جب بھی سند باد کسی مصیبت سے بچتا ہے تو قاری اطمینان کا سانس لیتا ہے۔ سند باد کی کہانی ایک باہمت شخص کی زندگی کی کہانی ہے، سند باد جہازی کی زندگی، سند باد حمال کی دلچسپی کا بڑا سامان کرتی نظر آتی ہے۔ حمال ہر سفر پر ہمہ تن گوش بیٹھا ہے۔ اور یہ سفر بھی کیسے سفر ہیں۔ یہاں اس کتاب میں سات اسفار بتائے گئے ہیں۔ کہیں ایسا جزیرہ دکھایا گیا ہے جو بڑی مچھلی کے جم جانے سے بنا ہوا ہے اور کشتی میں سواروں کے آگ جلانے سے وہ مچھلی کروٹ بدل رہی ہے جس سے جہاز اُلٹ جاتا ہے اور سند باد تختے کا سہارا لے کر زندگی بچاتا ہے۔ کسی جگہ رُخ کا انڈہ جس کا قطر آدمی کے ہوش اُڑا دیتا ہے۔ کسی مقام پر بندے کھانے والے دیو سے سند باد کا بچنا قاری کے لیے حیرت کا سامان کرتا ہے۔ کہیں غار میں سند باد لوگوں کو مار کر اپنا رزق حاصل کر رہا ہے۔ کہیں جہاز کا کپتان بھٹک کر سمندر میں جا نکلتا ہے۔ کسی جگہ سندباد کو جان بچانے کے لیے سوداگر کی بیٹی سے شادی کرنا پڑتی ہے۔ ہر سفر سے کامیاب واپس لوٹنے پر حمال کو اشرفیاں اور اچھا کھانا مل رہا ہے۔
محمد سلیم الرحمن صاحب نے ان تمام واقعات کوبچوں کے پڑھنے کے لیے گوارا بنایا ہے۔ آسان اور شستہ نثر لکھی ہے۔ ڈراؤنی تراکیب کا استعمال نہیں کیا جس سے بچے بدک جائیں۔ اصل میں بچوں کے لیے لکھنا مشکل کام ہے۔ کئی طرح کے خیالات رکھنے پڑتے ہیں۔ دیکھنا ہوتا ہے کہ نثر مبتذل یارکیک نہ ہو۔ اب یہاں اس کتاب میں ایک واقعے کا بتانا ضروری تھا جس میں سمندری گھوڑوں سے گھوڑیوں کے ملاپ کا تذکرہ مقصود تھا۔ سلیم صاحب نے اس ملاپ کے لیے جفت کا لفظ استعمال کر کے ابتذال کو ختم کر دیا۔ واقعات کا بیان سبھاؤ سے کیا ہے۔ کوئی کڑی چھوڑی نہیں۔ واقعہ اپنے پورے طیف سے قاری کو لبھاتا ہے۔ اس کتاب کو ”ریڈنگز“ کے اشاعتی ادارے ”القا پبلکیشنز“ نے نہایت عمدگی سے چھایا ہے۔ ریڈنگز بچوں کے ادب کو مستقل اشاعتی سلسلہ بنانا چاہتا ہے۔ شاید یہ اُس سلسلے کی پہلی چند کتابوں میں سے ایک ہے۔ ”سند باد جہازی“ کا ٹائٹل مریم محمود کی ذہنی اختراع ہے۔ کیسا عمدہ ٹائٹل ہے۔ بولتا ہوا، باتیں کرتا ہوا، سفر کا حال بتاتا ہوا اور اُس پر محمد سلیم الرحمن صاحب کا اُردو روپ، اُردو زبان سے محبت اور وفاداری بشرطِ اُستواری کی نشانی اور بچوں سے محبت کی تصویر۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/