اردو ناول کے روپ بہروپ

یہ تحریر 2966 مرتبہ دیکھی گئی

نذیر احمد کا ناول “مراۃ العروس” 1869ء میں شائع ہوا تھا۔ اگر اسے اردو کا پہلا ناول تسلیم کر لیا جائے (کئی نقاد اور محقق اسے اولیت کے مرتبے پر فائز کرنے پر راضی نہیں) تو اردو میں ناول نگاری کو ڈیڑھ سو سال بیت چکے۔ اس موقع کی مناسبت سے اکادمی ادبیات پاکستان نے اپنے رسالے “ادبیات” کا خصوصی شمارہ شائع کیا ہے جو دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس میں شامل مضامین میں مختلف اہلِ قلم نے یہ جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ ان ڈیڑھ سو برسوں میں ناول کے نام سے جو کچھ لکھا گیا اس کی ادبی قدر و قیمت کیا ہے۔
ڈیڑھ سو سال کم نہیں۔ یہ تو رو پہلی، سنہری اور الماسی جبلیوں سے بہت آگے کی بات ہے۔ ناول انسانوں کی طرح نہیں کہ اسے سترا بہترا قرار دیا جا سکے۔ اس کی پیدائش کا بھی صحیح علم نہیں اور اس کے وفات پانے کا ذکر کیا کیا جائے۔ ہاں، اگر انسان اتفاق سے معدوم ہو گئے تو ان کے دیگر مادی اور غیرمادی کارناموں کیطرح ناول کا نشان بھی نہ رہے گا۔ لیکن اس طرح سوچنے کی ضرورت کیا!
رسالے کی دونوں جلدوں میں ناولوں کی خوبیوں اور خامیوں سے بحث تو کی ہی گئی ہے، بعض ناول نگاروں، مثلاً مرزا اطہر بیگ، مستنصر حسین تارڑ اور حسن منظر سے گفتگو بھی شامل ہے۔ ان انٹرویوز کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ محمد الیاس کا مضمون “میں اور میرا تخلیقی عمل” کہیں زیادہ دل چسپ ہے۔ علاوہ ازیں ناول کی تنقید پر ایک مکالمہ ہے اور دو مذاکرے ناول کے تخلیقی عمل پر ہیں۔
بعض پرانے مضامین کو بھی اس خصوصی نمبر میں جگہ دی گئی ہے۔ کیا اچھا ہوتا اگر وارث علوی کا کوئی مضمون بھی شامل کر لیا جاتا۔ بیشتر مضامین اس شمارے کے لیے لکھے گئے ہیں۔ ان میں بعض اچھے ہیں، بعض کمزور ہیں۔ یہ ناگزیر تھا کیوں کہ سب لکھنے والوں کی ذہنی سطح اور تنقیدی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ تاہم جو کچھ یہاں یکجا کر دیا گیا ہے وہ غنیمت معلوم ہوتا ہے۔
جو مضامین قابلِ ذکر معلوم ہوئے وہ یہ ہیں۔ “ناول، تاریخ اور تخلیقی تجربہ” از شمیم حنفی، “پاکستانی ناول: ہیئت، اسلوب اور امکان” از احسان اکبر، “مابعد جدیدیت اور “اردو ناول میں کہانی کا مسئلہ” از صلاح الدین درویش، “ناول میں نئی تکنیک اور تجربات” از قاسم یعقوب، “1980ء کے بعد کے اردو ناول” از مشرف عالم ذوقی۔ یہ مضمون اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں بھارت میں لکھے جانے والے بہت سے ناولوں کا ذکر ہے۔ ان میں سے بیشتر پاکستان میں دستیاب نہیں اور سچ یہ ہے کہ ہمیں ان کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔ نور الحسنین کا مضمون “اردو ناول کی ایک صدی” میں بھی بھارتی اردو ناولوں پر توجہ دی گئی ہے۔ “تنہائی کے صحرا کی مسافت” از مبین مرزا۔ یہ عبداللہ حسین کی شخصیت اور فن کے بارے میں ہے۔ “انتظار حسین بحیثیت ناول نگار” از غفور شاہ قاسم، “ابن صفی اور پاپور فکشن کا المیہ” از محمد عاطف علیم۔ یہ خاصی متوازن تحریر ہے اور بہت سے بہکے بہکے دعووں کی شائستگی سے تردید کرتی ہے۔ “کچھ قبض زماں کے بارے میں” از خالد جاوید، “ڈاکٹر رینو بہل اور گرد میں اٹے چہرے” از حنیف باوا۔ اس مضمون سے پہلی بار پتا چلا کہ رینو بہل اردو سے نابلد تھیں۔ انھوں نے اپنے شوق سے اردو سیکھی اور پھر جو لکھا اردو میں لکھا۔
جن مضمونوں کا ذکر ہوا وہ عمومی نوعیت کے ہیں جن ناولوں پر الگ سے مضمون شائع ہیں ان کا ذکر بھی یہاں آ جانا چاہیے۔ محمدی بیگم کے ناول از حمیر اشفاق، فسانہ آزاد از شازیہ اکبر، آگ (عزیز احمد) از محمد عاطف علیم، لندن کی ایک رات (سجاد ظہیر) از اسلم سحاب قریشی، گرگ شب (اکرام اللہ) از ناصر عباس نیر، چار دیواری (شوکت صدیقی) از رضوانہ سید علی، آگ کا دریا از عامر سہیل، راہیں (محمد منشا یاد) از صباح کاظمی، علی پور کا ایلی از ڈاکٹر مظہر اقبال، زوال (انیس ناگی) از سعید ساعی، محمد الیاس کے ناول از ڈاکٹر جمیل حیات ، خالد فتح محمد کے ناول از اظہر حسین، تنہا (سلمیٰ اعوان) از امین راحت چغتائی، مٹی آدم کھاتی ہے (محمد حمید شاہد) از شمس الرحمٰن فاروقی، تلاش وجود (اسلم سراج الدین) از محمود احمد قاضی، خوشیوں کا باغ (انور سجاد) از ممتاز احمد خاں، خوشبو کی ہجرت (صلاح الدین عادل) از مرزا حامد بیگ، نرک (نسیم انجم) از سلیم آغا قزلباش، کاغذی گھاٹ (خالدہ حسین) از محمد حمید شاہد، وحید احمد کے ناول از خالد اقبال یاسر، انارکلی (مرزا حامد بیگ) از خالد علوی، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر (اصغر ندیم سید) از نجیبہ عارف، گنجی بار (رضوان شاہد) از اے خیام، نیلی بار (طاہرہ اقبال) از شہناز شورو، خواب سراب (انیس اشفاق) از ظہیر انور، پانی مر رہا ہے (آمنہ مفتی) از زیف سید، ساسا (شیراز دستی) از فرخ ندیم، تکون کی چوتھی جہت (اقبال خورشید) از ناصر شمس، غلام باغ (مرزا اطہر بیگ) از اقبال آفاقی، گرد میں اٹے چہرے (رینوبہل) از حنیف باوا، میرا گاؤں (غلام الثقلین نقوی) از ذوالفقار احسن، گردباد (محمد عاطف علیم) از منیر فیاض، طاؤس فقط رنگ (نیلم احمد بشیر) از سبینہ قریشی اعوان، مستنصر حسین تارڑ کے ناولوں کو تحسین خراج پیش کرنے کے لیے 54 صفحے وقف کیے گئے ہیں۔ ایک بات سمجھ میں نہ آ سکی۔ محمد حمید شاہد نے “کاغذی گھاٹ” کو خالدہ حسین کا ناول قرار دیا ہے۔ تحسین بی بی کے خیال میں خالدہ حسین کے ناول کا عنوان “حاصل گھاٹ” ہے اور اپنا مضمون یہی سمجھ کر قلم بند کیا ہے۔ اتنی صریح غلطی کا کیا جواز ہے؟
آخر میں اردو ناولوں کی ایک فہرست ہے جسے خاصا طویل ہونے کے باوجود ناتمام کہا گیا ہے۔ ایسی فہرستوں کا سو فی صد مکمل ہونے کا امکان ہوتا بھی نہیں۔ یہ ناتمام فہرست بھی بعض لحاظ سے غلط سلط ہے۔ بعض ناولوں کو، جو انگریزی سے ترجمہ کیے گئے ہیں، اردو ناول تصور کر لیا گیا ہے۔ ناولٹوں کو بھی ناول قرار دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کی جامعات میں ناولوں پر لکھے گئے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالات کی فہرست بھی درج ہے۔ یہ بھی بوجوہ مکمل نہیں۔ یہ دیکھ کر تعجب سے زیادہ افسوس ہوا کہ بھارت میں لکھے جانے والے تحقیقی مقالات تقریباً سب کے سب مسلم طلبا اور طالبات کے قلم سے ہیں۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نئی نسل میں غیرمسلموں کو اردو سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔
مذکورہ بالا تحریر کو ایک بہت ہی ضخیم رسالے کا سرسری جائزہ ہی سمجھا جائے۔ مدیر نے رسالے میں اردو ناول کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور کم از کم اس لحاظ سے انھیں سراہا جا سکتا ہے۔ اگر معیار کے اعتبار سے مندرجات میں کچھ اونچ نیچ نظر آتی ہے تو اس کا حل کسی کے پاس نہیں۔
ایک دو باتوں کا اضافہ یہاں بے جا نہ ہوگا۔ یہ شکایت سننے میں آتی رہی ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے اربابِ اقتدار نے اردو میں ترجمے کے لیے فارسی کتابوں کو چنا اور انگریزی کتابوں سے مطلق اعتنا نہ کیا۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مغرب میں انیسویں صدی کے آخر تک بلکہ بعض اوقات بیسویں صدی کے ابتدائی چند عشروں تک قدامت پسند طبقوں اور دینی حلقوں میں (اور یہی طبقے اورحلقے بالا دست تھے) ناولوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ عام خیال تھا کہ ناول مخرب اخلاق ہیں اور لڑکوں اور خاص طور پر لڑکیوں اور جوان عورتوں کو بالکل نہیں پڑھنے چاہییں۔ معلوم نہیں کہ گلکرسٹ اور فورٹ ولیم کالج سے وابستہ دوسرے انگریزوں کی ناولوں کے بارے میں کیا رائے تھی۔ اگر وہ ناولوں کے مخالف نہ بھی ہوتے تو ایسے افراد انھیں کہاں سے ملتے جو انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر سکتے۔
اس پر بھی افسوس ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ انیسویں صدی میں جب مغرب میں بڑے بڑے ناول لکھے جا رہے تھے تو اردو کا دامن بڑے تو کیا گوارا ناولوں سے بھی خالی تھا۔ یہ کہنے والوں کو خیال نہیں آتا کہ اٹھارویں صدی تک روسی زبان تقریباً تہی دست تھی۔ اس وقت اردو میں میر تقی میر، سودا اور میر درد جیسے شاعر موجود تھے اور اگر پرانی اردو میں کبیر اور میرابائی کو بھی شامل کر لیا جائے (بلکہ شامل کرنا چاہیے) تو ہمارا پلّا کہیں بھاری ہو جاتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ یہ سب شاعر تھے، نثر نگار نہ تھے۔ روسی ادب کو عروج یکایک انیسویں صدی میں حاصل ہوا۔ پہلے پشکن سامنے آیا جسے آج بھی روسی اپنا سب سے بڑا شاعر مانتے ہیں۔ پشکن نے فکشن بھی لکھا اور ایک منظوم ناول بھی۔ اس کے بعد تو لکھنے والوں کی ایسی مرعوب کن فہرست دیکھنے کو ملتی ہے کہ ہوش اڑ جاتے ہیں۔ کون ہے جو تالستائی، گوگول، دوستوئیفسکی، ترگنیف، لرمنتوف ، گنچاروف، لیسکوف اور چیخوف کی عظمت سے انکار کر سکے۔ اور یہ عہد زریں صرف ستر اسی سال پر محیط تھا۔ تالستائی اور دوستوئیفسکی دونوں کہتے تھے کہ اگر ڈکنز کو نہ پڑھتے تو کچھ بھی نہ کر سکتے۔ ہم نے ڈکنز کی طرف دیکھا تک نہیں۔ صرف رینالڈز کے ترجمے کرتے رہے جسے انگریزی ادب میں کوئی مقام حاصل نہ ہو سکا۔
ادبیات: خصوصی شمارہ، اردو ناول ڈیڑھ صدی کا قصہ (دو جلدیں)
مدیر: اختر رضا سلیمی؛ ناشر، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد
صفحات: 1154؛ بارہ سو روپیے