آدمی ہمارا ۔۔ایک مُرتّبہ کتاب

یہ تحریر 3315 مرتبہ دیکھی گئی

ویسے کتاب مرتب کرنا کوئی کام نہیں لیکن ایک اچھی کتاب مرتب کرنا بہت بڑا کام ہے ۔احمد مشتاق کے حوالے سے مشتاق احمد کی کتاب دوسرے زمرے میں آتی ہے کیونکہ اس سے پہلے احمد مشتاق پر کوئی باقاعدہ کتاب سامنے نہیں آئی ۔احمد مشتاق کتنے بڑے شاعر ہیں ؟ جی ! شمس الر حمٰن فاروقی صاحب کو ان کے ایک مصرعے پر پوراناول لکھنا پڑا —-کئی چاند تھے سرِ آسماں—–اور فاروقی صاحب نے ہی ان کو فراق سے بڑا شاعر قرار دیا تھااور اس کے لئے دلائل بھی دئیے۔ایک ایسا شاعر جس کی شاعری کو ہر بڑا نقاد تسلیم کرتا ہے اور ہمارے دور کے بڑے لکھنے والے اس کے حوالے سے مضامین لکھ چکے ہیں اور ان بڑے ناموں میں کچھ بہت بڑے نام بھی شامل ہیں جن کے نام کا ڈنکا مشرق و مغرب میں بجتا ہے جیسا کہ انتظار حسین ،سلیم الرحمٰن ،شمس الرحمٰن فاروقی،ناصر عباس نیر وغیرہ۔جی ان سب اور مزید بہت سے علمائے ادب کی آرا،مضامین اور احمد مشتاق کی شاعری پر ان کے تبصرے اس کتاب کے اجزائے تشکیلی ہیں ۔یہ کتاب ادب کے طالب علم کو احمد مشتاق سے متعارف کرواتی ہے ،اس کے عمدہ اشعار اور ان کے کلام کی خوبیاں اور روایت سے ان کے تعلق اور ان کی اختراعات سب سے آگہی مہیا کرتی ہے ۔ہر طرح سے ،ہر جہت سے احمد مشتاق کے کلام کو جیسے دیکھا گیا اس سب کے حوالے سے مضامین شامل ہیں ۔شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کے مضمون”غزل کی شعریات فراق اور احمد مشتاق محاکمہ“میں بہت کامیاب انداز میں احمد مشتاق کی غزل کو روایت کے تناظر میں دکھایا گیا ہے۔اس مضمون سے قاری کو اس بات کا ادراک ہو جاتا ہے کہ احمد مشتاق کس قد کاٹھ کے شاعر ہیں اور اردو غزل جس کے ڈانڈے فارسی سے ملتے ہیں اس وحشیہ کو قابو میں لانے کے لئے دشتِ روایت کی کس قدر خاک چھاننا پڑتی ہے ۔یہ تو ہوئے عہدِ حاضر کے ایک بڑے نقاد شمس الرحمٰن فاروقی صاحب ان سے کچھ مضمون چھوڑ کے آگے ایک اور بڑے نقاد ،عالمِ ادب ،مخترع اور متعدد مزید ناصر عباس نیّر کا مضمون ”کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی“آتا ہے ۔اسی مضمون کی چند سطریں ملاحظہ ہوں  جو احمد مشتاق کا درج ذیل شعر دینے کے بعد انھوں نے لکھیں

کھویا ہے کچھ ضرور جو اس کی تلاش میں ہر چیز کو ادھر سے ادھر کر رہے ہیں ہم

”کمی ،گمشدگی،کسی جنت سے بے دخلی اور معزولی بیسویں صدی کے جنوبی ایشیا ئی انسان کا اہم مسئلہ اور جدید ادب کا اہم موضوع ہے اور یہ احمد مشتاق کے یہاں بھی نئے نئے پیرایوں میں ظاہر ہوتا ہے۔کھوئے ہووں کی جستجو احمد مشتاق کے اکثر ہمعصروں کا مسئلہ ہے ،مگر احمد مشتاق کو کھوئے ہووں سے ’کھوئی گئی چیزوں‘ کا غم زیادہ ہے ۔کہنے کا مقصود یہ ہے کہ وہ کمی اور گمشدگی کو عام روزمرہ زندگی سے وابستہ کرتے ہیں “ ایک اور سطر دیکھیے اسی مضمون کی ”احمد مشتاق کی غزل کی خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ قطعی و مطلق بات کہنے سے گریز کرتی ہے۔اشارات کے علاوہ لہجے سے پیدا ہونے والی قطعیت بھی ان کے اسلوب کا اہم حصہ ہے“ ہے نا مزے کا مال۔ یہ مضمون پہلے غیر مطبوعہ تھا اس کتاب میں پہلی بار چھپاہے۔اسی طرح ہمارے ایک اور محترم استاد ڈاکٹر ضیاءالحسن نے احمد مشتاق کی رومانویت کو دوسرے شعراءسے مختلف قرار دیا ہے ۔ضیاءالحسن خود شاعر ہیں اور ادب کے استاد۔بطورِ نقاد وہ دوسروں سے ہٹ کر بات کرتے ہیں اور روشِ عام پہ چلنے سے گریزاں۔مارکسی ہونے کے ساتھ ساتھ مارکسی ادیبوں کو آڑے ہاتھوں بھی لیتے ہیں۔تھیوری کی مخالفت مدلل انداز میں بات کرتے ہیں شاید ان کو ادب کے پرکھنے کے لئے یہ عینک اضافی لگتی ہے اور خواہ مخواہ بھی ۔احمد مشتاق پر اپنے مضمون میں وہ اس دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ میر کی روایت کو فراق نے دوبارہ زندہ کیا اور ناصر کاظمی اور احمد مشتاق نے آگے بڑھایابقول ان کے”میر کی رومانویت کلاسیکی طرزاحساس اور گہرائی کی حامل ہے چنانچہ وہ ہمیں زندگی کی فلسفیانہ گہرائی سے روشناس کرواتے ہیں جو فراق ،ناصر اور احمد مشتاق کی شاعری میں مفقود ہے۔اس شاعری کا طرز احساس کلاسیکی شاعری سے زیادہ نئی زندگی کی دین ہے جو سرمایہ داری نظام کی وجہ سے اتھلی ہے اور زر پرستی کے رویے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے“ ۔اسی طرح احمد مشتاق کی شاعری میں انیس اشفاق کو غالب کا آہنگ نظر آتا ہے ۔”ناصر کاظمی اگر غزل کا لہجہ لے کر آئے تو احمد مشتاق غزل میں آہنگ لے کر آئے۔ اگر ناصر کاظمی میر کے لہجے کی تجدید کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں تو احمد مشتاق کے یہاں غالب کا آہنگ نظر آتا ہے ۔وہ غالب ہی کی طرح بہت عمدہ اور نادر ترکیبوں کا استعمال کرتے ہیں یہی ترکیبیں ان کے کلام میں نیا آہنگ پیدا کرتی ہیں “ ۔انیس اشفاق نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ناول نگاربھی ہیں۔ ان کے ناول دکھیارے ، پری ناز اور پرندے ،اور خواب سراب اردو کے اچھے ناولوں میں شامل ہیں۔وہ ماضی اور حال کے ڈانڈے ملانے میں بڑی مہارت سے کام لیتے ہیں اور احمد مشتاق کی شاعری میں بھی کچھ ایسے سلسلے انہیں نظر آتے ہیں جہاں حال کی تہہ کے نیچے ماضی چھپا نظر آتا ہے۔یاد آیا ، انیس اشفاق کی ایک کتاب” غزل کا نیا علامتی نظام “ ہے اور اپنے اس مضمون میں وہ احمد مشتاق کی شاعری میں برتی گئی علامتوں کے معنوی نظام پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔انہی اچھے مضامین میں احتشام علی کا مضمون ایک اور اچھا اضافہ ہے ۔وہ احمد مشتاق کی شاعری میں چھپے ہجرت کے کرب کو محسوس کرتے ہیں اور قاری کو بھی اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔احمد مشتاق کیونکہ ہجرت کے تجربے سے گزرے ہیں اور ان کی شاعری میں جا بجا اس دکھ کا احساس ملتا ہے ۔اس ضمن میں کئی اور اشعار کے ساتھ ساتھ احتشام علی نے یہ شعر اس حوالے سے نقل کیا ہے :

  کس کی نگاہ کھا گئی ،کون ہوا اڑا گئی خواب کی ٹہنیوں کے پھول،پھول کی ٹہنیوں کے خواب

کتاب کا آخری مضمون ہمارے ہر دلعزیز درویش دوست سلیم سہیل کا ہے ۔سلیم سہیل کا یہ مضمون ” ہم سب“ ویب گاہ پر چھپ چکا ہے ۔مضمون کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو”احمد مشتاق جیسے لوگوںکے لیے شاعری زندگی کا دوسرا نام ہے اور اس کو گزارنے کے لیے جو سلیقہ احمد مشتاق نے اختیار کیا ہے وہ محبت کا سلیقہ ہے۔۔مجموعہ گردِ مہتاب اور اوراقِ خزانی محبت اور رائیگانی کی دنیا ئیں ہیں۔کوئی نام ،کوئی موسم ،کوئی خوشی،کوئی چہرہ ایسا آن بسا جس نے شاعر کے قلب و ذہن کو اپنی ارادت میں لے لیااور پھر شاعر نے ساری زندگی اس محبت کے وظیفے میںکمی نہیں آنے دی۔۔۔ایک چلن جو انسان اپنے لیے بنالے اور پھر اس دھن کے نام زندگی کردے یہ بڑی بات ہے“

یہ اس کتاب کا ایک مختصر سا تعارف ہے جو قاری کو بس ذائقے سے آشنا کراتا ہے ۔احمد مشتاق اپنی اس کاوش کے لئے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان نے ایک بڑے شاعر کے حوالے سے اتنے سارے مضامین قاری کو ایک ساتھ پیش کیے جن کی جمع آوری آسان کام نہیں تھا۔

امجد رؤف المعروف عمران کی دیگر تحریریں