”دیارِشمس“کے مسافر

یہ تحریر 2745 مرتبہ دیکھی گئی

سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے اور سفرنامہ وسیلہ مفّر یعنی کتاب پکڑو اور لیٹے لیٹے دنیا جہان کے کونے چھان آؤمزے لے آؤ اور متعدد مزید۔آج کل جب ترکی اور پاکستان کی یاری کا نیا دور شروع ہوا ہے اور ترک صدر طیّب اردگان پاکستان کے کئی دورے کر چکے ہیں تو میرا بھی دل کیا کہ ترکی ہو آؤں اور وہاں کے حالات و واقعات کا جائزہ لوں اور دیکھوں کہ کیسا ہے دیارِ شمس۔میں ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی معیت میں ہوں۔جی وہی زاہد منیر عامر صاحب جو عربی ،فارسی انگریزی کے عالم پلس اردو کے ڈاکٹر ہیں اور اپنی مصروفیت کے باعث بمشکل چالیس کتب اردو انگریزی اور عربی میں ابھی تک لکھ پائے ہیں ۔راقم کا ہی قول ہے کہ زاہد منیر عامر صاحب کو بس ملاقاتِ شمس تبریزی والی آنچ کی کمی رہ گئی تھی اسی کا اہتمام کرنے میں کوشاں لگتے ہیں ۔خیر آگے بڑھنے سے پہلے میں اپنے ان اسفار کا حوالہ دیتا جاؤں جو میں نے یوسف خان کمبل پوش سے لے کر ناصرعباس نیرّ کی ہمرہی میں کیے (بشرط استادِ محترم ناصر عباس نیرّ ہائیڈل برگ کی ڈائری کو سفرنامہ کی ذیل میں رکھنے دیں تو)،ان اسفار میں میرے مختلف تجربے رہے اور ہر سفر کے اثرات بھی مختلف تھے ۔ممتاز مفتی کی سنگت میں اگر اگلے سال میرا ارادہ حج کا بنا تو مستنصر حسین تارڑ مجھے روکے ہے کہ آؤ ادھر چلتے ہیں جہاں سفر شروع ہوتے ہی ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھی عمر بھر کے ساتھ کے لئے تیار ہو کے نکلی ہوتی ہے ۔اسی طرح کی کئی سفلی جذبات ابھارنے والی باتوں کے مزے بہرکیف تارڑ صاحب کے ہاں ہی میسر ہیں اور یہ بات بھی تسلیم کرنا پرتی ہے کہ تارڑ صاحب پہ لاکھ الزام ہوں مگر ان کے سفرنامے قاری کو سفر نامے پڑھنے کی لت ضرور ڈال دیتے ہیں ۔ہم بھی اسی لت کے عادی ،اسی طرح کی بلند توقعات لیے اور کیا کیا اوول فول سوچتے ہوئے دیارِ شمس کی طرف لپکے آخر اتنا تو جغرافیہ ضرور جانتے تھے کہ ترکی مشرق اور مغرب کے سنگم پہ ہے اور ڈاکٹر محمد کامران صاحب کا کمرہ اوریئنٹل کالج میں زاہد منیر صاحب کے کمرے کی سیدھ میں ہے جن نے گ سے گڑیا ج سے جاپانی میں اپنے ”اپنی روحانی وارداتوں“ کا ذکر اتنے خوبصورت انداز میں کیا کہ دل ھل من مزید کی دہائی دیتا ہے۔سو سفر نامے کے دوسرے تیسرے صفحے پر بعد از دیباچہ جات و اظہارات و تشکّرات جب روداد ِ سفر شروع ہوتی ہے تو ذیل کی عبارت نے میرے کان کھڑے کر دیے : ”جہاز سے اتر کر بس میں سوار ہوئے تو دیکھا کہ شکل و شباہت سے پاکستانی اور گود میں بچے کو اٹھائے ہوئے ایک خاتون اپنے سامان سے بری طرح الجھ رہی تھی۔اس تنہا خاتون کے لئے ممکن نہیں ہو رہا تھا کہ وہ بچے کو اور سامان کے مختلف اجزا کو کس طرح سنبھالے ۔میں نے اس کی مشکل دیکھتے ہوئے اس کا کچھ سامان اٹھا لیا اور اس نے مجھے شکرگزاری کی نگاہوں سے دیکھا “ اور قارئین اس سے آگے ہمارے زاہد صاحب کی منزل آگئی اور وہ محترمہ کہیں چلی گئیں اور ہم دیکھتے رہ گئے اور اپنے بزرگوں استادوں کی کردار کشی کی جو مابعد جدیدی روایت چل پڑی ہے ہم اس کے امین نہ بن سکے ۔اس کے بعد بھی ہم تاک میں ضرور رہے کہ آخر ادب کے استاد ہیں لغزشِ نظر کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا مگر وہ بھی گھرسے آیت مبارکہ پڑھ کر نکلے تھے ثُمَّاارجِعِ البَصَرکِرَّتَینِ یَنقَلِب اِلیکَ البَصَرُخَاسِاًوّھُوَحَسِیر    ترجمہ :پھر دوبارہ (سہ بارہ)نظر کر تونظر(ہر بار)تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی۔۔۔آخر قاری سوچ رہا ہو گا کہ اگر اہتمامِ حسن نہیں تو بھلا دلچسپی کا سامان کیسے پیدا ہو سکتا ہے ۔جی اس کا اہتمام بڑی استادی سے کیا گیا ،ہیلن آف ٹرائے کا تذکرہ ،حوریم سلطان جو سلطان قانونی کی وہی لگتی تھیں جو ممتاز محل شاہ جہان کی ، اس پہ مستزاد استنبول قونیہ اور دوسرے چھوٹے بڑے مقامات پر انسانی کاریگری کے حسن کا ذکراتنی خوبصورتی سے کیا گیاہے کہ پڑھنے والا کھو کر رہ جاتا ہے۔وہ مساجد کا ذکر اور ان میں خطاطی کے نمونوں پر جب بات کرتے ہیں تو یقین کیجئے بڑا مزہ آتا ہے ،اورحان پاموک کا ناول My Name is Red بھی مصوّروں سے متعلق ہی تو ہے جس پر ان کو نوبل انعام ملا ہے بڑے حسن تک رسائی کے لئے واقعی جہاں پر نظر کا ٹھیک ٹھاک ہونا شرط ہے وہیں پر دماغ کا تابندہ ہونا بھی لازم ہے اگر دماغ روشن نا ہو تو ناظر اور نظارے کے درمیان خود نظر حجاب بن کر کھڑی ہو جاتی ہے اور سامنے غار کی دیوار پر چلتی پرچھائیوں پر حقیقت کا گمان ایمان کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور۔۔۔”دیار ِشمس“میں اور کیا نہیں ،تاریخ و تحقیق پہ آتے ہیں تو لفظ کو گھر کی دہلیز پر پہنچا کر آتے ہیں اور ببانگ دہل اپنے ترک میزبان ڈاکٹر درمش کو کہتے ہیں کہ ” ترکوں کو عام طور پر پتہ نہیں کہ عربی کا اشعرالشعراءامراؤالقیس ترکی میں مدفون ہے “پھر اگلی چند لائنوں میں امراؤالقیس یمن کے علاقے کوہِِ دمون میں بیٹھا تاش کھیلتا نظر آتا ہے اور قاصد اس کے پاس اس کے والد کے قتل ہو جانے کی بدخبری لے کر آتا ہے اور یہ تابع فرمان بیٹا بازی مکمل کر لینے کے بعد تسلی سے باپ کے قتل کی پوری خبر سن کے کہتا ہے ضعنی ابی صغیراً و حملنی دمہ کبیرا یعنی جب میں چھوٹا تھا تو میرے باپ نے مجھے ضائع کیا اور جب بڑا ہوا تو مجھ پر اپنے خون کا بوجھ لاد کر چلا گیا۔۔بھئی یہ کوئی پہلا یا آخری جملہ نہیں سفرنامے کے ابواب میں دورانِ سفر کی کئی گفتگوئیں ہیں جن میں لفظ و واقعے کی ایسی چھان بین ہوئی ہے کہ حق قائم ہوا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے محمد حذیفہ کا شکریہ جن نے اس سفر کےلئے ان کو آمادہ کیا اور ہزاروں لیروں میں ہونے والا یہ سفر ہم نے چند سو روپوں میں کر لیا ،رومی کا مزار دیکھ لیا ،تاریخ جان لی ،عربی فارسی کا لطف لیا اور آخر پہ استنبول یونیورسٹی میں ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا لیکچر بھی سنا۔۔۔یہ کتاب بک کارنر جہلم سے چھپی ہے ۔کاغذ بہت عمدہ لگایا گیا ہے۔والسلام!

امجد رؤف المعروف عمران کی دیگر تحریریں