کلیشے کی تلچھٹ

یہ تحریر 119 مرتبہ دیکھی گئی

کلیم کو جواب مل نہیں رہا
نکل گئے ہیں جملے اپنی بافت سے
پھر گئے ہیں لفظ اپنے معنوی وجود سے
کسی کو واسطہ نہیں ہے
بود سے نبود سے

نظر اٹھاؤ
اور ہمیں بھی دیکھتے چلو
اداس ساعتوں کی کائی جم گئی ہے آنکھ میں
رگوں میں تھم گئی ہے خوں فشار کی روانگی
جو زندگی کا نام تھی
ہمیں بھی دیکھتے چلو
کہ ہم وہی ہیں جن کو کھا گئی ہے چپ
کہی کو ان کہی میں ڈھالتے ہوئے
جو ایک دم خموش ہو گئے ہیں
تیز بولتے ہوئے
سن رہے ہیں شور جو بکھر رہا ہے،
بھر رہا ہے شہر میں
وہی دو جمع دو مساوی چار کی
گھسی پٹی رٹی ہوئی روایتیں
جو بار بار پھر کے گھیر لیں گی
آدمی کے کلبلاتے ذہن کو۔۔۔

پرانی میز پر
قدیم اور(اپنے واسطے) عظیم لوگ
بڑبڑا رہے ہیں مستقل
کہ ان کو حفظ ہیں
حکایتیں جو پٹ چکیں
وہ آیتیں جو مٹ چکیں
صحیفے راکھ ہو چکے
جو ان کے عہد میں بڑائی کی
دلیل تھے
اور ان میں جو کہا گیا تھا ہوچکا
اتر چکا جو چیخ کا عذاب تھا
نگر نگر میں بھر گیا ہے شور
بہرے ہو گئے ہیں کان
اور خود اپنے دل کی بات تک
سنائی دے نہیں رہی
دھویں کی ایسی جنموں لمبی
رات ہے
کہ اپنے گھر کی راہ تک
سجھائی دے نہیں رہی

قدم بڑھاؤ اور
ہمیں سے یہ خبر بھی لے کے
بانٹتے چلو
کہ صور پھونکا جا چکا
ہم آپ اپنے ذہن کی
دہکتی دوزخوں کی لہریں لیتی آگ کی
لپٹ میں آگئے
سفر تمام ہو گیا

پہاڑ راکھ ہو چکے
کلیم اب تلک وہیں کھڑا ہے
کہہ رہا ہے جو وہ پہلے کہہ چکا
مگر اسے جواب مل نہیں رہا
اسے کوئی خبر کرو
کہ اس کا جو مقام تھا
وہ کھو چکا
گزر گیا حساب کا (ثواب کا)جو دن لکھا تھا لوح پر
صلیب کھینچتے ہوئے
پیامبر حواریوں کو رو چکا
کلام وہ جو ہو چکا

انس رحمان