کلیم کو جواب مل نہیں رہا
نکل گئے ہیں جملے اپنی بافت سے
پھر گئے ہیں لفظ اپنے معنوی وجود سے
کسی کو واسطہ نہیں ہے
بود سے نبود سے
نظر اٹھاؤ
اور ہمیں بھی دیکھتے چلو
اداس ساعتوں کی کائی جم گئی ہے آنکھ میں
رگوں میں تھم گئی ہے خوں فشار کی روانگی
جو زندگی کا نام تھی
ہمیں بھی دیکھتے چلو
کہ ہم وہی ہیں جن کو کھا گئی ہے چپ
کہی کو ان کہی میں ڈھالتے ہوئے
جو ایک دم خموش ہو گئے ہیں
تیز بولتے ہوئے
سن رہے ہیں شور جو بکھر رہا ہے،
بھر رہا ہے شہر میں
وہی دو جمع دو مساوی چار کی
گھسی پٹی رٹی ہوئی روایتیں
جو بار بار پھر کے گھیر لیں گی
آدمی کے کلبلاتے ذہن کو۔۔۔
پرانی میز پر
قدیم اور(اپنے واسطے) عظیم لوگ
بڑبڑا رہے ہیں مستقل
کہ ان کو حفظ ہیں
حکایتیں جو پٹ چکیں
وہ آیتیں جو مٹ چکیں
صحیفے راکھ ہو چکے
جو ان کے عہد میں بڑائی کی
دلیل تھے
اور ان میں جو کہا گیا تھا ہوچکا
اتر چکا جو چیخ کا عذاب تھا
نگر نگر میں بھر گیا ہے شور
بہرے ہو گئے ہیں کان
اور خود اپنے دل کی بات تک
سنائی دے نہیں رہی
دھویں کی ایسی جنموں لمبی
رات ہے
کہ اپنے گھر کی راہ تک
سجھائی دے نہیں رہی
قدم بڑھاؤ اور
ہمیں سے یہ خبر بھی لے کے
بانٹتے چلو
کہ صور پھونکا جا چکا
ہم آپ اپنے ذہن کی
دہکتی دوزخوں کی لہریں لیتی آگ کی
لپٹ میں آگئے
سفر تمام ہو گیا
پہاڑ راکھ ہو چکے
کلیم اب تلک وہیں کھڑا ہے
کہہ رہا ہے جو وہ پہلے کہہ چکا
مگر اسے جواب مل نہیں رہا
اسے کوئی خبر کرو
کہ اس کا جو مقام تھا
وہ کھو چکا
گزر گیا حساب کا (ثواب کا)جو دن لکھا تھا لوح پر
صلیب کھینچتے ہوئے
پیامبر حواریوں کو رو چکا
کلام وہ جو ہو چکا
انس رحمان