درختوں کے گیلے پتوں سے
پانی کے قطروں کی طرح
دھیرے دھیرے شام اتر رہی تھی
ایک سے دوسری ڈار پر اڑتی
چڑیوں کی چیں چیں
سارے میں سرمئی پھیلاؤ کا
نقارہ بجا رہی تھی
قریبی چرچ کے گھنٹے کی مسلسل ٹن ٹن
“سبھی کو گھر لوٹننے کی یادہانی” کی بجانے
شاید صرف وقت کا پتا دے رہی تھی
گلیوں کی سرد تاریکی کو مٹاتے، زرد قمقمے،
ایک ایک کر کے روشن ہو رہے تھے
شام اترنے کےاس فطری ریچیول میں
بہرحال ایک غیر مانوسیت ایک کمی سی تھی
پردیس کی شام دراصل میری کبھی نہیں تھی
اپنے یہاں مغرب سمے، پر پھڑپھڑاتے پرندوں کا شور،
اذان کی گونج میں کھو جاتا ہے
تاریک رستوں کی سرد مہری
چولہے سے اٹھتے دھویں
اور ابلتے پانی کے بلبلوں میں، سمو جاتی ہے
پہاڑوں پر سٹریٹ لیمپ نہیں
بلکہ پساروں میں زرد بلب ہوتے ہیں
جنکی روشنی میں شام ڈھلتے ہی
مال مویشی بھی اندر ہانکے جاتے ہیں
اپنے یہاں اذان مغرب
فضا میں بھیجی گئی ساؤنڈ ویوز ہی نہیں ہوتیں
بلکہ سبھی کو گھر لوٹنے کی یادہانی دلانے والی
ایک سریلی ندا ہوتی ہے!
جبھی تو شام اترنے کی ریت ہماری
باقی سب سے جدا ہوتی ہے!
چھ سال پہلے کہی گئی ایک نظم
یہ تحریر 203 مرتبہ دیکھی گئی