نظم

یہ تحریر 119 مرتبہ دیکھی گئی

ہم اس مشترکہ نیند سے کبھی نہیں جاگے
جس کے لیے ہم دونوں نے
یکساں مقدار میں خواب آور گولیاں کھائی تھیں
وہ فیصلے کا دن تھا
اور ہم اپنے پپوٹوں پر
بیداری کا پتھر ڈھوتے ڈھوتے تھک گئے تھے
اس گہری نیند میں جانے سے پہلے
ہم کیا کچھ نہیں کر لینا چاہتے تھے
مگر کچھ زیادہ نہیں کر پائے
اس دن بھی تمہیں رنج تھا
کہ تم نے ابھی پوری دنیا نہیں گھومی
اور میں بھی بہت سی کتابیں نہیں پڑھ سکا تھا
مہنگے کافی ہاؤس سے جاگنے والوں کا
وہ آخری کپ جو ہم نے پیا
اور وہ یادداشتیں جو ہم نے دہرائیں
کسی اور کو یہ معلوم بھی ہوتا
تو ہمیں مسکراتا دیکھ کر
اس خبر کو واہمہ سمجھتا
مگر ہم کسی سے کہہ ہی تو نہیں پائے

کچھ لوگ
آج بھی ہمیں نیند میں چلتا ہوا دیکھ کر
سمجھتے ہیں کہ ہم سے زیادہ بیدار
اس دنیا میں اور کوئی نہیں
اور ہم جیسا ہونے کی خواہش کرتے ہیں
مگر وہ نہیں جانتے
کہ سونے سے قبل جو شے
آپ کے تجربے، شعور یا لا شعور میں
موجود نہ ہو
اس کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔۔۔