نظم

یہ تحریر 292 مرتبہ دیکھی گئی

ہر بار غفلت میں بہت ہم ڈھونڈتے ہیں غفلتیں۔
راہوں سے یک سر بے خبر، دریا جہاں نسیان کے۔
بھٹکے ہوے، بہکے ہوے، ملتی ہیں پھر بھی مہلتیں۔

گو ہوش بھی قایم نہ ہوں، باقی رہیں گی علّتیں۔
پہلو اگرچہ اس میں ہیں آخر تلک نقصان کے۔
ہر بار غفلت میں بہت ہم ڈھونڈتے ہیں غفلتیں۔

کس کا کرم ہے، کیا کہیں! کُھلتے چلے جاتے ہیں دَر۔
پانؤ میں چکّر پھر بھی ہے، پھرتے ہیں بے سُدھ دَربدر،
بھٹکے ہوے، بہکے ہوے، ملتی ہیں پھر بھی مہلتیں۔

کیا منزلیں ہیں سامنے؟ ہر سُو اُفق ہے پُرکشش۔
گم گشتگانِ زندگی اب کس لیے بدلیں روش؟
ہر بار غفلت میں بہت ہم ڈھونڈتے ہیں غفلتیں۔

یا یہ خوابِ خام ہے جس کا سرا کوئی نہیں۔
سیر و سفر دھوکا ہے سب، رہتے وہیں کے ہیں وہیں۔
غفلت کے پردے میں غرض ملتی رہیں گی مہلتیں۔
۲۰۱۵ء