اب ہمارے پاس باقی ہیں سراب۔ جھڑ چکے اُمّید کے اشجار سے ایک اک کر ...
تمھیں یاد ہی کہاں ہے کہیں گھر بھی تھا تمھارا۔ اسی گھر میں تھا ستارہ ...
اپنی کوتاہیوں میں ملبوس ہم اِدھر اُدھر تکتے ہیں۔ روشنیاں اور سایے آس پاس گردش ...
قاعدے سے تو مجھے اس کتاب پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا انتساب میرے ...
یہ چلتے چلتے، کوئی اَدھ کِھلا پھول دیکھتے ہی، بھلی سی ٹھٹکن۔ بہار کب آئی ...
“میں ایسے شخص کی نسبت کفر کے فتوے پر کیوں کر دستخط کر سکتا ہوں ...
اسی مُوسلادھار بارش میں دُھندلی شبیہیں، لبالب چھلکتی ہوئیں بلبلوں میں۔ یہی پل دو پل ...
یہ زمانہ کیا ہے؟ شاید اک گزرگاہِ خیال جس پہ ہم جیسے کروڑوں سایے ہیں ...
کسی خاتون کا لکھا ہوا ضخیم ناول پڑھنے کو ملے تو فوراً قرۃ العین حیدر ...
ورائے شام بھی کوئی مقامِ تنہائی۔ جدائیوں کے سبق سارے جستہ جستہ ہیں۔ بسا چکے ...
