نظم

یہ تحریر 497 مرتبہ دیکھی گئی

یہ چلتے چلتے، کوئی اَدھ کِھلا پھول دیکھتے ہی،
بھلی سی ٹھٹکن۔
بہار کب آئی ہر کسی کے لیے یہاں پر
تو کس لیے سرسری یہ چٹکن۔
مگر میں اپنا بھی سوچتا ہوں
کہ کتنے دن کے لیے یہاں ہوں۔
یہ جان و دل کو مسلتی اَٹکن۔
یہ پھول جس کو غرض نہیں ہے
کہ کون دیکھے گا اس کو کِھلتے،
کہ کون سونگھے گا اس کی خوشبو۔
جو فرض اس پر کیا زمیں نے،
جو قرض اس نے لیا زمیں سے،
جو دھوپ چکھّی، ہوا کو پرکھا،
اسی سے بانکے سکون میں گُم،
کسی بکھرنے، بکھر کے مٹنے
کی بے زبانی کی سمت بڑھتا۔
کیا میں بھی سیکھوں گا آنے والے
دنوں میں اس کی سی بے نیازی؟
کہ دل میں کب سے نیا، اچھوتا
گُلاب کِھلنے کا منتظر ہے۔
بہار کیا کوئی راہ میں ہے
یا کوئی موسم کہ جس کی
میں تاب لاسکوں گا
نگاہ میں ہے؟
۵۱۰۲ء