نظم

یہ تحریر 523 مرتبہ دیکھی گئی

یہ زمانہ کیا ہے؟ شاید اک گزرگاہِ خیال
جس پہ ہم جیسے کروڑوں سایے ہیں محوِ خرام۔
نہ کوئی ماضی ہے باقی اور نہ آیندہ کوئی
لحظہ لحظہ ٹوٹتا، مٹتا چلا جاتا ہے حال۔

ہم زمانے سے گزر جاتے ہیں، جیسے ٹوٹ کر
بہتی جائیں پتّیاں آبِ رواں کے ساتھ ساتھ؛
یا زمانہ چپ چپاتے خود ہمارے آر پار۔
وہ زمانہ ہو یا ہم ہوں، کچھ نہیں آتا ہے ہاتھ۔

یہ ہماری نیند ہے کیا؟ وقت کی بیداریاں!
وقت خوابیدہ ہے کیا؟ ہم رَت جگوں کی خواریاں!
زندگی کس کے لیے ہے؟ موت کے اُس پار کیا؟
ایسی طوفاں گاہ میں ساحل ہے کیا، منجھ دھار کیا!
۲۰۱۵ء