نظم

یہ تحریر 551 مرتبہ دیکھی گئی

ورائے شام بھی کوئی مقامِ تنہائی۔
جدائیوں کے سبق سارے جستہ جستہ ہیں۔
بسا چکے تھے اُمنگوں کو جن میں چُن چُن کر،
وہی مکان ہیں خالی، خراب و خستہ ہیں۔

چراغ لے کے کوئی گھومتا ہے کمروں میں۔
نہیں ہے کوئی جہاں، گردشِ زمانہ ہے۔
وہ ماہ و سال گئے اور وہ لوگ بیت گئے
کہ حُسن و حُسنِ سخن دُور کا فسانہ ہے۔

جہاں پہ شام سے آگے ہے شب کی ویرانی
وہاں چراغ بھڑکتے ہیں آشیانوں میں۔
تمام عمر کے بچھڑے ہووں کی آوازیں
نہ جانے کس لیے پھر گونجتی ہیں کانوں میں؟

وَرائے شام بھی کوئی مقامِ تنہائی،
ہوائے غم جہاں دل کو بُجھا کے لے آئی۔
۲۰۱۵ء