منزل ابھی نہیں آئی

یہ تحریر 1464 مرتبہ دیکھی گئی

کسی خاتون کا لکھا ہوا ضخیم ناول پڑھنے کو ملے تو فوراً قرۃ العین حیدر کا خیال آتا ہے۔ خیر سے یہاں تو عنوان میں بھی کچھ مماثلت ہے۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے ایک ناول کو “آخرِ شب کے ہم سفر” کا نام دیا تھا۔ رفعت ناہید سجاد کے ناول کا عنوان “چراغِ آخر شب” ہے۔ گویا ہم تاریکی کے آخری دور سے گزر رہے ہیں اور صبح ہونے والی ہے۔ صورتِ حال مگر یہ ہے کہ رات کچھ زیادہ ہی طویل ہو گئی ہے اور سحر کے دُور دُور تک آثار نہیں۔ بہرحال، “چراغِ آخر شب” نہ تو رجائی ہے نہ قنوطی۔ پلڑا کسی طرف جھکا ہوا نہیں۔ زندگی میں بڑی برداشت ہے۔ یہ نشیب کو قبول کر لیتی ہے اور ہر فراز کو نجات نہیں سمجھتی۔ یہ ایسے توازن کی حامل ہے جو انسانوں کی کبھی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔

ناول خطِ مستقیم میں آگے نہیں بڑھتا۔ زمانہ، یاد کی صورت اختیار کرکے، اپنا اظہار کرتا ہے، کبھی پیچھے، ماضی، بعید یا قریب میں، کبھی حال میں۔ تاہم واقعات کی وابستگی پاکستان ہی سے ہے۔ یہ ستر برس کو روداد ہے جسے مختلف زاویوں سے دیکھا گیا ہے۔

قصے کا مرکز متوسط درجے کا ایک خاندان ہے جس کا سربراہ عباس رشید نامی پروفیسر ہے۔ ابتدا میں اسے ریٹائرڈ دکھایا گیا ہے۔ لیکن دوسروں سے تھوڑا مختلف سوچنا، معاشرے میں بڑھتی ہوئی آمرانہ فضا کو ناپسند کرنا، یہ سب معاملات آدمی کو مطعون کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اسی لیے، ضیا کے دور میں، خفیہ ایجنسیوں کے لوگ عباس رشید کو یونیورسٹی سے اٹھا کر لے گئے، تین ماہ جیل میں رکھا اور برسرِ عام کوڑے بھی مارے۔ جس طرح کی گفتگو روا رکھی گئی (اور اس میں مبالغہ نہیں ہو سکتا) اس کی ایک مثال یہ ہے: “وجہ تو تمھیں خود بھی پتا ہے، ماسٹر۔ کیا سمجھتے ہو تم خود کو، چھ سو روپیے ماہوار کمانے والے کیڑے مکوڑے۔” اس ذہنیت رکھنے والے سے کوئی کیا کلام کر سکتا ہے! حاکمیت کا تکبر انسان کو خراب کر دیتا ہے۔ بوئے سلطانی پورے نظام میں اوپر سے نیچے تک پھیلی رہتی ہے۔ نظام کے ادنیٰ پرزے بھی اکڑ خوں سے خالی نہیں ہوتے۔

کردار تو اور بھی بہت سے ہیں، جیسے عباس رشید کی بیٹی، عبیر، جس نے ایک ڈراما لکھ کر اور سٹیج پر دکھا کر، تھوڑی بہت شہرت حاصل کی ہے؛ یا اس کی بہن، تنویر، جس نے غلط مرد سے شادی کی اور پھر پچھتاوے کے سوا اس کے حصے میں کچھ نہ آیا۔ اصل میں یہ ناول، اول تا آخر، ان حالات پر طنز ہے جن سے پاکستان اپنے مختصر زمانی وجود میں گزرا ہے۔

یوں تو ملک میں ولن اور مکار بہت ہیں لیکن ان میں سے نمایاں کرکے دو ہی کو دکھایا گیا ہے۔ ایک سارہ حق جس نے ملک میں عورتوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے تنظیم بنا رکھی ہے۔ اس تنظیم کی سربراہ ہونے کی حیثیت سے اسے ملک میں بھی، اور ملک سے باہر بھی، قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اصل میں وہ مکمل فراڈ ہے۔ بنی ٹھنی اور فر فر زبان چلانے والی فراڈ۔ اسے نہ تو غریب عورتوں سے کوئی دلچسپی ہے نہ ان کے مسائل سے۔ یہ سب ایک مشغلہ ہے۔ آخر جب دولت کی فراوانی ہو تو وقت گزارنے کے لیے بھی کچھ کرتے رہنا چاہیے۔ شغل اچھا ہے جس سے شہرت بھی ملتی ہے اور عزت بھی اور باہر کے ملکوں کے سیر سپاٹے کرنے کے مواقع بھی۔

دوسرا ولن نعیم ملک ہے جس سے مرعوب ہو کر تنویر غلطی سے شادی کر لیتی ہے اور پچھتاوے کے سائے میں جیتی ہے۔ روز بروز امیر سے امیر تر ہوتے جانے والا نعیم صحافی ہے۔ اس کا کام ہی پاکستان کی برائیاں کرنا ہے۔ اس نے یہ روش اس لیے اختیار نہیں کی وہ ملک کو سدھارنے کا خواہش مند ہے۔ ان کاموں کے لیے “اُدھر کا اشارہ” بھی چاہیے۔ ایک دفعہ، نعیم کی غیرموجودگی میں، تنویر کو اس کی الماری کو ٹٹولنے کا موقع ملا تو ایک ہدایت نامہ اس کے ہاتھ آ گیا اور اسے پتا چلا کہ نعیم کس کا ایجنٹ ہے۔ لیکن اس انکشاف سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نعیم جیسے سیکڑوں ہیں اور ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ پاکستان چراگاہ ہے۔ خوب چرو چگو، پیٹ بھر کر برا کہو اور اُڑ جاؤ۔

یہاں بہت سے نوجوان کردار ہیں جو نظام میں کسی بنیادی تبدیلی کے متمنی ہیں لیکن دیکھتے ہیں کہ ان کے سامنے تمام رستے بند گلیوں میں تمام ہوتے جاتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ حالات کے جبر کےقیدی ہیں اور ان کی آزادی واہمے سے زیادہ کچھ، نہیں۔ ناول میں گھپ اندھیرا ہے۔ بس کہیں کہیں، لمحے دو لمحے کے لیے، روشنی کی بندکیاں، شہابوں کی طرح، ابھرتی ڈوبتی نظر آتی ہیں۔ یہاں ثبات تغیر کو نہیں بے ایمانی کو ہے۔ اس اعتبار سے ناول میں جو کچھ دکھایا گیا ہے وہ حقائق پر مبنی ہے۔

ناول کی چند خصوصیات کی طرف اشارہ کرنے میں ہرج نہیں۔ اسے پڑھتے ہوئے دلچسپی قائم رہتی ہے۔ خطابت آمیز عبارتیں اوررنگیں بیانیاں کہیں نہیں ہیں۔ خاتمہ سلیقے سے ہوا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے قرۃ العین حیدر کا خیال ضرور آتا ہے۔ یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ ادب زندگی سے زیادہ اچھے ادب سے متاثر ہوتا ہے۔ آپ اسے قدرے قدیم انداز کا ناول سمجھ کر پڑھ لیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو کہنا مقصود تھا وہ سہولت سے کہہ دیا گیا ہے۔ کہیں کہیں بے پروائی ظاہر ہوتی ہے، جیسے گھر میں موجود خیالی جن، جسے پہلے علی بخش کہا گیا ہے اور آگے چل کر اللہ بخش۔ “ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے” کا میر امن کی تصنیف “باغ و بہار” سے کوئی تعلق نہیں۔ سارہ حق inhibition کو inhabitation کہتی ہے اور نام نہاد مورخ حضرت نظام الدین اولیاؒ کو خواجہ ناظم الدین اولیا کے نام سے یاد کرتا ہے۔ شاید یہ مصنفہ کی یا پروف کی غلطیاں نہ ہوں بلکہ سارہ حق اور مورخ کی کم علمی کی طرف اشارہ ہو۔

یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ناول میں پیر مکوڑا نامی کھیل کا ذکر ہے جسے میں نے پہلی اور آخری بار 1940ء میں دیکھا تھا۔ اب تو قارئین شاید ہی اس کھیل سے واقف ہوں۔ غالباً اسے ان حضرات نے رواج دیا تھا جو مزار پرستی کے خلاف تھے۔

چراغِ آخرِ شب از رفعت ناہید سجاد

ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، لاہور

صفحات: 583؛ چودہ سو روپیے