طرحی غزل

یہ تحریر 508 مرتبہ دیکھی گئی

پھول بزمِ ناز میں پہنچے گلستاں چھوڑ کر
”کوئے جاناں کو چلے آہو بیاباں چھوڑ کر“

بزم برہم ہے، نہیں جب سے وہ برہم بزم میں
دل پریشاں سایہئ زلفِ پریشاں چھوڑ کر

جو دمِ شمشیر پر چل پائے، وہ رکھے قدم
جادہئ تحقیق پر، دینِ بزرگاں چھوڑ کر

زندگی سے تابکے دریوزہئ انفاسِ چند
آؤ نکلیں دامنِ عمرِ گریزاں چھوڑ کر

دیکھنا کیسی کشش اُس کے لبِ لعلیں میں ہے
وجد کرتی نے نکل آئی نیستاں چھوڑ کر

میرے دل کی وسعتوں نے کر لیا سب کو اسیر
خود عدو دامن سے آ لپٹے گریباں چھوڑ کر

قید سے خورشید جیتے جی کہاں چھوٹیں گے ہم
اور اِک زنداں میں آئے، ایک زنداں چھوڑ کر