غزل

یہ تحریر 501 مرتبہ دیکھی گئی

O
اِس جہاں سے کہ اُس جہاں سے آئی
خاک میں روشنی کہاں سے آئی

دل نے کر دی سپرد آنکھوں کے
بات کچھ بن نہ جب زباں سے آئی

تیر چُھوٹا تو صورتِ فریاد
اِک ندائے حزیں کماں سے آئی

دیکھ سورج کی خاکساری دیکھ
خاک پر دھوپ آسماں سے آئی