غزل

یہ تحریر 199 مرتبہ دیکھی گئی

پھر سوزِ نہاں اپنا، لفظوں میں سجا دیکھوں
بہتے ہوے سونے کو مٹّی میں ملا دیکھوں

سنتا ہوں کہ صدیوں میں اک غار سے نکلا ہوں
آنکھوں کو جھپکتا ہوں، اب دیکھیے کیا دیکھوں

پتھر تو نہ ہوجاؤں اِس جبر کے موسم میں
گو سر نہیں اُٹھ سکتا، آواز اُٹھا دیکھوں

اے آنکھ بتا تُجھ میں ہے تابِ نظر کتنی
مستور اُسے دیکھوں یا چہرہ نما دیکھوں