غزل

یہ تحریر 307 مرتبہ دیکھی گئی

O

خود اپنے ذہن کی وسعت میں یوں فنا ہو جاؤں
فسونِ گردشِ ایّام سے رہا ہو جاؤں

درخت سبز نہیں ہیں خزاں کا موسم ہے
مگر تُم آج بھی آؤ تو میں ہرا ہو جاؤں

شکستگی سے سفینے کی باخبر ہوں مگر
فقط خدا کے بھروسے پہ ناخدا ہو جاؤں

لرز رہا ہے عدو مجھ کو زیر کرتے ہوے
کہ ہوں تو میں بھی قیامت اگر بپا ہو جاؤں