غزل

یہ تحریر 488 مرتبہ دیکھی گئی

خاکدانوں کی ٹھنڈی نحوست پہ کب تک گزارا کریں
آسمانوں کے چارہ گروں سے کہو کچھ ہمارا کریں

دھوپ میں وقت بے وقت نکلا کریں کارخانوں سے ہم
اور چھینی سے جسموں کو کھاتا ہوا زنگ اتارا کریں

دوپہر، باغ امرود کے اور کچے گھروں کی قطار
صحنچوں میں کھڑی بیبیاں واہموں کو بگھارا کریں

ہنستے بستے دریچوں کے جو خواب ہیں رائیگاں تو نہیں
کیوں نا بنجارے۔۔۔ اک روز آوارگی سے کنارا کریں

گھاس ہے، بھوکے قصبے ہیں، افلاس ہے ،حشر کی پیاس ہے
دیوتا گمشدہ راستوں پہ مسافر اتارا کریں

بے مرادی کی پھٹکار چہرے پہ ہے، سر پہ کووں کا غول
زندگی شرط میں ہارنے والے کس کو پکارا کریں

صف بہ صف بچھ رہی نور کی پُستکوں کے امیں، شہ نشیں
مجھ لعیں کے سوالوں کو، گستاخیوں کو گوارا کریں