یہ بالمثل چارہ گری

یہ تحریر 2559 مرتبہ دیکھی گئی

طویل نظم لکھنے کا  رواج اب کم ہو گیا ہے۔ ایک بدلی ہوئی دنیا میں، جہاں گوناگوں ترغیبات کا دائرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، شاعری کو چاہنے والے اور پڑھنے والے کم ہو گئے ہیں۔ شاعری جس طرح کے ذہنی ارتکاز اور زبان کی لطافتوں سے جس سطح کی آشنائی کا تقاضا کرتی ہے وہ بیشتر لوگوں کے بس کی بات نہیں رہی۔ اس خرابی کی ذمے داری حکمران طبقوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنھوں نے تعلیمی نظام کو کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں شاعری کا کوئی خاص چرچا نہیں رہا۔

بیسویں صدی میں کئی طویل نظمیں لکھی گئی ہیں۔ سب سے پہلے ایذرا پاؤنڈ کے  کینٹوز کا خیال آتا ہے۔ بطور نظم یہ ادھوری سی رہ گئی ہے اور داد سے محروم۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ ایذرا پاؤنڈ دوسری عالمی جنگ میں اطالیہ میں تھا اور وہاں سے سرمایہ داری نظام، سود خوری اور یہودیوں کے خلاف تقریریں نشر کرتا  رہا۔ اتحادیوں کی نظر میں اس سے بڑا ناقابلِ معافی جرم اور کیا ہو سکتا تھا۔ یونانی شاعر اور ناول نویس، کازانت زاکس نے اودسیوس کے بارے میں ایک طویل نظم لکھی ہے جو 33333 مصرعوں پر مشتمل ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ موجود ہے جسے پڑھنا آسان نہیں۔ نوبیل انعام یافتہ شاعر، ڈیرک والکوٹ، نے بھی ایک طویل نظم لکھی۔ اور نظمیں بھی شاید ہوں جن کا مجھے علم نہیں۔

قاسم یعقوب کے فلیپ کی عبارت سے معلوم ہوا کہ سعید احمد قازقستان کے شاعر، مختار شیخانوف، کی طویل رزمیہ نظم کا منظوم ترجمہ کر  چکے ہیں۔ شاید اس کے بعد سعید احمد کو خیال آیا ہو کہ نظمیں تو بہت لکھی ہیں۔ کیوں نہ طویل نظم بھی لکھی جائے۔ یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ ہم سب اپنے سے پہلے لکھنے والوں اور معاصروں سے اثر قبول کرتے رہتے ہیں۔ جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ کسی سے متاثر نہیں اسے خود فریبی کی دلدل میں دھنسا سمجھیے۔

“اکیسویں چاند کی رات” جس کا ذیلی عنوان “سرائے نا وقت میں ایک مکالمہ” ہے کوئی اتنی طویل نظم بھی نہیں۔ بیشتر مصرعے چھوٹے چھوٹے  ہیں اور نظم کو ایک نشست میں آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کی معنویت سے پوری طرح روشناس ہونا مقصود ہو تو پھر ایک قرات ناکافی ہے۔ اپنی ظاہری سلاست اور ستھرائی کے باوجود نظم پر پیچ ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ شاعر جو بیان کرنا چاہتا ہے وہ بذات خود پیچیدہ ہے اور کسی طرح، ہیر پھیر کے بغیر، ادا نہیں ہو سکتا۔

عنوان سے توجہ اکیسویں  صدی کی طرف جاتی ہے یا اندھیرے پاکھ کی جانب۔ اس میں دقت یہ ہے کہ شاعر خود وقت کا تعین کرنے سے انکاری ہے۔ دوسری یہ کہ چودھویں رات گزر جانے کے بعد اندھیرے پاکھ کا آغاز ہوتا ہے۔ ایسی کوئی  چودھویں رات پچھلی چند صدیوں میں تو نظر نہیں آتی۔ نظم جب ناوقت میں سانس لے رہی ہے تو اکیس سے کیا مراد ہے؟ خیال ہے کہ یہ الٹ پھیر اس سیمیائی کیفیت کا غماز ہے جو نظم میں رچی ہوئی ہے۔

نظم نہ آپ بیتی ہے نہ جگ بیتی بلکہ یہ دونوں پہلو مدغم نظر آتے ہیں۔ انھیں الگ کرکے دیکھا نہیں جا سکتا۔ تضادات تو ہمیشہ سے زندگی میں موجود رہے ہیں لیکن پچھلے پندرہ بیس برسوں میں ان کی ہیجانی فضا  ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔ اس فضا کے ابہام اور سراسیمگی کو، جس میں زیادہ ڈراؤنا پہلو یہ ہے کہ لبھاوٹ بھی ہے، سعید احمد بڑی حد تک آئینہ کرنے میں کامیاب ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں “بہت بولنا / رسم ہے شہر کی” (شہر کی جگہ دنیا پڑھ لیجیے) اور مرگِ موضوع، مرگِ انسان اور مرگِ مصنف اور تجہیز و تکفین کا ذکر آتا ہے تو یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ دنیا میں اتنا شور کبھی نہ تھا اور یہ شور بھی کیا، ایک ابتلا ہے جس نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ اور انسان “وقتِ محدود میں ایک خودکار خواہش زدہ کل” بن کر رہ گیا ہے۔ آثار یہی ہیں کہ اگر کوئی بڑی تبدیلی نہ آئی تو اربوں انسان محض کل مانسوں میں ڈھل کر چند افراد کے غلام بن کر رہ جائیں گے ۔ اس اعتبار سے یہ نظم ہر بدلتے منظر میں یاسیت سے دوچار ہے اور منیر فیاض نے صحیح لکھا ہے کہ نادیدہ کیمرے کئی رخ سے اس بکھراؤ کو دکھائے چلے جاتے ہیں۔ راوی پیچ در پیچ راستوں اور رخنوں سے مناظر کو اجالتا چلا جاتا ہے جو ٹوٹتے رہتے ہیں اور انھیں جوڑنے والے غلط جوڑتے ہیں اور پھر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ کیا زندگی کا علاج زندگی سے ہو سکتا ہے اور موت کا موت سے؟ ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن جن لفظوں کے سہارے شاعری وجود میں آ سکتی ہے وہ اپنی ظاہری ناتوانی کے باوجود سخت جان ہیں، زندہ ہیں۔ خود یہ نظم اس امر کا ثبوت ہے کہ شاعری آج بھی ہمارے گرد و پیش کو نئے تناظر میں دکھانے پر قادر ہے۔

باقی رہی یہ بات کہ نظم کو کتنا سراہا جائے گا! سراہا جا سکتا ہے، تو یہاں اپنی بے بسی کا اقرار کرنا ہوگا۔ قبولیت ایک ایسی شے ہے جس پر نقادوں اور تبصرہ نگاروں کا ذرہ برابر بھی اختیار نہیں۔ ایک طویل نظم غائر عالم نے بھی لکھی ہے جو مزاج اور لفظیات کے لحاظ سے سعید احمد کی کاوش سے مختلف ہے۔ اس پر تبصرہ پھر کبھی  سہی۔

اکیسویں چاند کی رات از سعید احمد

ناشر: ویرا مطبوعات، اسلام آباد

صفحات: 112؛ چار سو روپیے