ہم اور وہ

یہ تحریر 2572 مرتبہ دیکھی گئی

میرٹھ میں ہندو مسلم فسادات کا آغاز  سولہ مئی  1987ء کو ہوا. تیسرے دن ہی میرٹھ انتظامیہ نے فوج بلالی.ہندو پریس  کے مطابق 1987ء میں میرٹھ منی پاکستان بن گیا تھا اور اگر پی اے سی (صوبائی مسلح کانسٹبلری)  نے سبق نہ سکھایا ہوتا تو مسلمان ہندوؤں  کا  جینا دوبھرکر دیتے۔22 مئی تک میرٹھ پوری طرح سے چھاؤنی میں تبدیل ہو چکا تھا۔اسی دوران میں ایک ہندو نوجوان،جو چھت پر پہرا دے رہا تھا،اندھی گولی لگنے سے مارا گیا۔اس کے دو ساتھی لڑکے بھی زخمی ہوۓ۔ہلاک ہونے والا نوجوان ایک میجر کا بھائی تھااور” بی جے پی” کی ایک مقامی رہ نما,شکنتلا شرما,کا بھانجا۔اس واقعے کے بعد فوج نے سوچا کہ مسلمانوں کو سبق سکھایا جائے۔میجر پٹھانیا نے مسلمانوں کے محلے ‘ہاشم پورہ’ جا کر لوگوں کو گھر سے باہر نکلنے کا حکم دیا۔بوڑھوں اور بچوں کو چھوڑ دیا گیا اور نوجوانوں کو چن کر ایک ٹرک میں بٹھایا اور غازی آباد کے پاس دو نہروں کے کنارے لے جاکر گولیاں مار دیں۔یہ کارروائی رات کے وقت ہوئی اس قتل عام کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا اس لئے مارنے والے خود بھی گھبرائے ہوئے تھے اور جلدی میں تھے۔نتیجہ یہ کہ بعض نوجوان زخمی تو ہوئے مگر بچ گئے۔ چالیس کے قریب مارے گئے.

“وبھوتی ناراین رائے”نے انڈین پولیس میں چھتیس سال تک خدمات انجام دی ہیں۔وہ ہندی کے اہم ناول نگار ہیں اور درجن بھر سے زیادہ کتابوں کے مصنف۔جب مسلمانوں کا یہ حراستی قتل عام ہوا تو اتفاق سے وہ غازی آباد کے پولیس کپتان تھے۔واقعہ پیش آنے کے چند دن بعد ہی انھوں نے طے کر لیا تھا  کہ وہ اس کے بارے میں کتاب لکھیں گے۔

اس قتل عام کا مقدمہ چلتا رہا اور اٹھائیس سال بعد 21 مارچ 2015ءکو عدالت کی طرف سے فیصلہ سنایا گیا۔وبھوتی نارائن کو چند روز پہلے سرکاری وکیل ‘اکبر عابدی’ نے یقین دلایا تھا کہ وہ ملزموں کو سزا دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ان کا دعویٰ غلط ثابت ہوا۔عدالت نے تمام  سولہ ملزموں کو یہ کہہ کر بری کر دیا کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ عدالت کے سامنے پیش کئے گئے سولہ آدمی ہی وہ مجرم تھے. جنہوں نے قتل عام کیا تھا۔اٹھائیس سال تک تحقیق اور تفتیش ہوتی رہی اور اس سے حاصل کچھ نہ ہو سکا۔

اس بارے میں مصنف لکھتے ہیں:

“مجھے یہ لکھنے میں کوئ ججھک نہیں ہو رہی ہے کہ تفتیش شروع کرنے کے دن سے ہی سی آئ ڈی مجرموں کو

 بچانے کی مہم میں لگ گئ تھی۔اس کتاب پر کام کی ابتداء میں نے سی آئی ڈی کے ذریعے عدالت میں داخل دستاویزوں کے مطالعے سے ہی کی اور جیسے جیسے میں ان میں ڈوبتا گیا یہ واضح ہوتا گیا کہ تفتیش مجرموں پر الزام ثابت کرنے اور ضروری شواہد جمع کرکے انھیں عدالت  سے سزا دلانے کے لیے نہیں بلکہ سارے معاملے کو الجھا کر ایسے حالات پیدا کرنے کے لیے کی جا رہی تھی  جن میں کسی بھی عدالت سے انھیں سزا دلانا نا ممکن ہو جائے۔”

وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ:

” ہندوستان کے نظام عدلیہ کی بے بسی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ اپنی تمام کو ششوں کے باوجود استغاثہ میجر پٹھانیا کو عدالت میں حاضر نہیں کرا سکا۔”

بھارت میں ہندو مسلم تناؤ کے بارے میں ہمارے جو بھی خیالات ہوں ان سے ہماری جانب داری صاف جھلکتی ہے اور حقائق کو ہمیشہ مد نظر نہیں رکھا جاتا۔”وبھوتی نارائن رائے” با ضمیر مصنف ہیں اور انھوں نے اس مسئلے کو جس طرح دیکھا ہے اس کا ذکر انھیں کے الفاظ میں مناسب ہے۔

انھوں نے کہاہے:

“سیکولرزم کی حمایت میں آئین میں مضمر سارے قوانین کےباوجود انڈین اسٹیٹ کی اندرونی ساخت  میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جو اسے صحیح معنوں میں ایک سیکولر سماج بننے سے روکتا ہے۔اس’کچھ نہ کچھ’ کا سب سے اہم حصہ فرقہ وارانہ تشدد ہے جس کی آگ 1961ء میں آزادی کے بعد جبل پور میں ہوئے پہلے بڑے فساد کے بعد ہر دوسرے تیسرے سال ملک کے کسی نہ کسی حصے میں بھڑکتی رہتی ہے اور لگ بھگ ہر فساد میں ایک ہی جیسی  کہانی دہرائی جاتی ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق لگ بھگ ہر بڑے فساد میں مرنے والوں میں بیشتر مسلمان ہوتے ہیں اور فسادات کے دوران حکومت کے سب سے زیادہ نظر آنے والے ادارے پولیس کی  کارروائیوں  کی مار بھی وہی جھیلتے ہیں۔”یا “اوسط ہندو یہ مان کر چلتا ہے کہ

دنگوں کی شروعات  مسلمان کرتے ہیں اور ان میں مرنے والے زیادہ  ہندو ہوتے ہیں. دنگوں کی شروعات کے بارے میں بحث کی گنجائش ہے لیکن مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں تو قطعی نہیں ۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق زیادہ تر دنگوں میں مرنے والوں میں نہ صرف مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے بلکہ آدھے سے زیادہ میں تو یہ تعداد نوے فیصد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔”

اور سنیے”:جن لوگوں کو دنگوں کے دوران کنٹرول روم میں پولیس افسروں اور مجسٹریٹوں کی بیٹھکوں میں شرکت کا موقع ملا ہو گا،ان کا دھیان میری طرح’٫ہم’ اور’وہ’  الفاظ پر ضرور گیا ہو گا۔عام طور سے وہاں موجود افسر ہندوؤں کے لیے ہم اور مسلمانوں کے لیے وہ کا استعمال کرتے ہیں”

مسلمان دنگے کیوں شروع کرتے ہیں اور نقصان کیوں اٹھاتے ہیں اس کا  آپ کو دلچسپ  جواب ملے گا:”اوسط ہندو یہ کہے گا کہ مزاج سے بے رحم اور  بر بر مسلمان دنگا شروع تو کرا دیتے ہیں اور امن پسند اور نرم دل ہندو شروع میں نقصان اٹھاتا ہے لیکن  پولیس کے موقع پر پہنچتے ہی صورت حال بدل جاتی ہے۔دوست پولیس نہ صرف ہندوؤں کی حفاظت کرتی ہے بلکہ دشٹ مسلمانوں کو سزا بھی دیتی ہے اور مسلمانوں کا زیادہ نقصان اسی وجہ سے ہوتا ہے۔”

“31 اکتوبر 1984ء کو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے وسیع پیمانے پر قتل عام سے پہلے افواہ پھیلائی گئی کہ قتل کی خبر سن کر  انھوں نے مٹھائیاں بانٹیں ہیں۔ یہ افواہ کہیں بھی سچ نہیں پائی گئی. 1946ء میں بہار میں تیس ہزار مسلمانوں(غیر سرکاری اندازہ چالیس سے پچاس ہزار) کے قتل عام کو نواکھلی میں مسلمانوں کے ذریعے ہندوؤں کے قتل عام کا رد عمل بتایا گیا جب کہ نواکھلی میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 139 (غیر سرکاری اندازہ 200) ہندو مارے گئےتھے. “

آئین اور قانون میں جو چاہے لکھا اور کہا گیا ہو لیکن اکثر اس پر عمل درآمد بے دلی سے کیا جاتا ہے یا کیا ہی نہیں جاتا،بالخصوص جب کسی بالادست فریق کے مفادات کو، کھرا کھرا انصاف ہونے کی صورت میں، نقصان پہنچ سکتا ہو۔آج سے تقریبا ساٹھ سال پہلے جسٹس آنند نرائن ملا نے، جو اردو شاعر بھی تھے، اپنے کسی فیصلے میں لکھا تھا کہ

 “بھارت میں جرائم ہمیشہ افراد کا ایک  ہی منظم گروہ ہے اور وہ پولیس ہے۔”

یہ بات کم و بیش زیادہ تر ملکوں کی پولیس پر صادق آتی ہے۔

اس کتاب کا مطالعہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔لیکن اسے پڑھ کر خوش ہونے یا اطمینان ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں۔ہمارے ہاتھ بھی کوئی خاص صاف نہیں ہیں۔

ہاشم پورہ 22 مئی از وبھوتی نارائن رائے،ترجمہ:ارجمند آرا

ناشر:عکس پبلی کیشنز ،لاہور

صفحات : 176,چار سو روپے