گھر کا چراغ

یہ تحریر 2246 مرتبہ دیکھی گئی

مولانا جانشین حیدر کا شمار گاؤں کی اہم شخصیّتوں میں ہوتا تھا۔ عزّت کی سیڑھی سے رسوخ کی دیواریں چڑھتے چڑھتے مُکھیا ہوگئے تھے۔ عمر پچپن چھپّن کے قریب رہی ہو گی۔ آج بھی سچائی ،ایمانداری اور پاک بازی کے معاملے میں اپنی مثال آپ تھے ۔ تمام مسائل کا حل ان کے پاس تھا۔ دور دراز سے بھی لوگ آیا کرتے۔ لیکن جب اپنے گھر کے چراغ کا مسئلہ سامنے آیا تو وہ اُلجھتے چلے گئے۔

کبھی وہ گبرو نوجوان تھا ۔ پونے چھ فُٹ سے بھی نکلتا قد۔ گندمی رنگ، لمبی ناک، بولتی آنکھیں، گھنگھریالے بال، سلیقے دار داڑھی، چال میں ٹھیراؤ اور باتوں میں جادوئی انداز۔ اس پُرکشش شخصیّت کے باعث لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ لڑکیاں جان چھڑکتی تھیں۔ لیکن اُس نے کبھی کسی پر بُری نظر نہیں ڈالی۔ گھر والوں کو اپنے جانشین پر بھروسا تھا لیکن ڈر بھی تھا کہ کہیں کوئی لڑکی اس کے دل پر جادونہ کر دے اور بغیر بارات ڈولی کے وہ بہو بن کر گھرنہ آ جائے۔ اس لیے جلد سے جلد اس کی شادی کر دینا چاہتے تھے۔ لیکن اس نے گاؤں میں رشتہ کرنے سے انکار کر دیا۔

پڑوسی گاؤں سے دلھن کا انتخاب کیا گیا ۔ خوبصورت، کمسن اور ساتھ میں نازک۔ عمر اٹھارہ انّیس ۔۔۔۔۔۔جانشین چھبّیس ستّائیس کا ۔ صحت مندی کا پیکر ۔چوڑا سینہ ۔ شبابی جوش سے بھر پور کمر کا گھیرا۔ بازوؤں میں فولادی طاقت۔ نشے سے پاک۔ صنفِ نازک جیسی بیماری سے بھی محفوظ۔

پہلی رات۔۔۔۔۔۔۔

جیسے برساتی پانی گھاٹی میں آہستہ آہستہ جمع ہوتا رہا ہو اورایک دن باندھ کے کنارے کو کاٹتا ہوا سیلاب بن کر آس پاس قہر برپا کررہا ہو۔ اُسے احساس تھا وہ زیادتی کر رہا ہے لیکن اس کے بعد بھی وہ خود کو قابو میں نہیںکر پایا ۔ نازک سی جان نے کسی طرح اپنی جان بچائی۔

دوسری رات اُس نے صاف انکار کر دیا۔ ہر رات فیصلہ کرتی کہ کل سے وہ اُسے قریب نہیں آنے دے گی لیکن جانشین محبّت بھری باتوں میں اسیر کر کے اُسے بازوؤں میں قید کر لیتا، منا لیتا اور یہی سب معمول کا حصّہ بن گیا۔

شبابی گھوڑے دوڑاتے ہوے مولانا جانشین حیدرنے یہ نہیں دیکھا کہ سڑک کیسی ہے ؟ بس من موجی انداز میںرفتارکے گھوڑے دوڑاتا رہا۔ تیز رفتاری حادثے کا پیش خیمہ بنی تو نازک حسینہ خوشی سے اُچھل پڑی کہ اب اُس کے لیے آسمان سے راحت کا پیغا م اُترے گا۔ کمر کا دائرہ پھیلتے ہی شروعاتی دنوں میں اسکولی بچّے کی طرح ہفتے میںایک دن بستے کا بوجھ کم ہوا۔ سوارکے اوپر سے کچھ اوربوجھ کم کروانا چاہتی تھی۔ جانشین ”ہاں“ میں ”ہاں“ ملاتا لیکن جیسے ہی رات اپنے بھیگے پنکھ سکھانے گرم بسترتک آتی وہ اُسے دبوچ لیتا۔ اس دن تو حدہی ہو گئی تھی۔ جب اُسے معلوم ہوا کہ دن پورے ہو گئے ہیں اور کسی وقت ہسپتال میں داخل کرنا پڑ سکتا ہے۔ چالیس دن کی چھُٹّی ہو سکتی ہے۔ درد شروع ہو گیا تھالیکن اِس حالت میں بھی اُسے ترس نہیں آیا۔ منع کرنے کے باوجود وہ سوار ہوہی گیا۔

دن مکمّل کر چکے بچّے کے دماغ میں گہری چوٹ آئی۔

جب وہ پیدا ہوا تو بالکل عام بچّوں کی طرح تھا لیکن جیسے جیسے بڑا ہوتا گیاحرکات وسکنات سامنے آتے گئے، ذہنی مفلوجیت آشکار ہوتی چلی گئی۔ مولانا جانشین حیدر پریشان رہنے لگے۔ اسپیشلسٹ سے رابطہ قایم کیا۔ پیسے کی پروا نہیں کی۔ لیکن کوئی فایدہ نہیں ہوا۔ بس ایک اُمّید کہ وقت کے ساتھ تبدیلیاں رونُما ہوں گی، اور زندگی کچھ حد تک عام ڈگر پر چلی آئے گی۔

لیکن سوال یہ تھا کہ ایک بیٹا ہے، وہ بھی اپاہج۔ اور کہیں اپاہج نے اپاہج کو جنم دیا تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان کی نسل کا کیا بنے گا ؟

کبھی کبھی وہ خود کو تسلّی دیتے کہ کسی کو تو بچّے کا سُکھ تک نہیں ملتا ہے ۔ کم سے کم نیم پاگل ہی سہی اُن کے پاس بیٹا تو ہے۔ لیکن ا س کا قصور وار کون ہے؟ اگراُس دن نفس پر قابو پالیتے توآج اُن کی نسل اپاہج نہ ہوتی۔ لیکن جب یہی بات بیگم جانشین کہتی تو وہ ماننے سے انکار کر دیتے، اُلٹا اُسے ہی قصوروار ٹھیراتے کہ اُس نے ہی کوئی اونچ نیچ کی ہو گی ۔ اور کبھی سوچتے کہ اچھا آدمی بھی عورت کے قریب جا کر پاگل ہو جاتا ہے ۔تو پھر ایک پاگل عورت کے پہلو میں سمٹ کرمرد جیسا فعل کیوں نہیں دہرا سکتا؟ جانے انجانے میں اپنے جیسے کو توجنم دے ہی سکتا ہے۔

مولانا جانشین حیدرنے ابتدائی سات آٹھ سالوں میںبیگمی جسم کا سارا رس چوس لیا تھا ۔چار بچّے ہوے۔ مفلوج الحال بیٹے کی پیدائش کے بعد اپاہج وراثت سامنے کھڑی تھی۔ لیکن وہ صحت مند وراثت کے حامی تھے۔ اس چاہت میںایک کے بعد ایک تین لڑکیاںچلی آئیں ۔ ڈاکٹر نے اُنھیں سمجھایا کہ اب اگر پھرسے حمل ٹھیرا تو زَچّہ اور بچّہ دونوں کو خطرہ لاحق ہے ۔

لیکن اس کے بعد بھی وہ لڑکے کی چاہ میں آگے بڑھے کہ کسی طرح ڈاکٹر اُنھیں پانچویں بچّے کی اجازت دے دیں۔ ڈاکٹرنے بیگم جانشین کو بتایا کہ اس حمل سے اس کی جان کو خطرہ ہے۔ پھر کیا تھا، زندگی سے بچھڑنے کا غم آنکھوں میں چھلک آیا۔ اس نے شوہرکے پاؤں پکڑ لیے۔ انھوں نے بھی سوچاکہ اگر بیوی مر گئی تو جسمانی خواہشات کا کیا ہوگا؟ بیٹیوں کا کیا ہو گا؟ آخرِ کا ر ڈاکٹر کی بات ماننے پر وہ مجبور ہوے۔

زندگی جب کشمکش کا شکار ہوتی ہے تو اثبات و نفی کے درمیان کا راستہ تلاش کرتی ہے۔

اس دوران گاؤں میں الیکشن ہوا تو وہ مولانا گری چھوڑ کر مکھیا گری میں قسمت آزمانے اُترے۔ اور قسمت دیکھیے کہ مدرسے میں پڑھاتے پڑھاتے مکھیا بن گئے۔

پھر تین چار سال کے اندر تینوں بیٹیاں ایک ایک کر کے سسرال چلی گئیں۔

اب باری تھی بیٹے کی۔

لیکن سِمنٹ کے درخت کی آبیاری کر کے پھل کی اُمّید کرنا بے وقوفی تھی۔ پھل اب بھی اُن کی اندرونی شاخوں میں لٹک رہے تھے لیکن گاؤں کی تاریخ میںاب تک ایسا کبھی نہیں ہوا تھاکہ کسی نے دوسری شادی کی ہو۔ اس لیے پہل کرنے سے گھبرا رہے تھے۔ حج کر لیا تھا ۔ داڑھی تو پہلے سے ہی تھی۔ دوپلّی سیاہ ٹوپی نے اُن کی شخصیّت کو اور بھی باوقار بنا دیا تھا۔ ایسے میںلوگ ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟ بیوی کبھی سوتن کی اجازت نہیں دے گی ۔ بدنامی اور رُسوائی کی خاطر وہ دل مسوس کر رہ جاتے تھے۔

اِدھر بیوی کی صحت کچھ اور خراب رہنے لگی تھی۔

پہلے جتنا زور زبردستی کرنا تھا وہ کر چکے تھے۔ بے احتیاطی کا مطلب تھااپنے ہاتھوں بیوی کی قبرکھودنا۔ پہلے ہفتے میں چھٹّی۔ اور اب ہفتے میںصرف ایک دن کام۔ آبِ پُشت کا پورابخار باہر نکلے تو نکلے کیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ جب وقت تھا تو پارسا بنے رہے اور اب جب جسمانی سکون کم کم میسّر ہے تو چاہتے ہیں کوئی اُن کے دُکھ کا مُداوا بن جائے۔ جو کبھی اُن پر مرتی تھیں وہ اپنی اپنی چہار دیواری میں خوش تھیں۔ پہل کرنے سے اب بھی دو چارمطلبی عورتیں مل سکتی تھیں لیکن انھیں اپنی عزّت اور شہرت پیاری تھی۔ پارسائی کے ایسے دور میں وہ چاہتے تھے ایک عورت اُن کی زندگی میں آئے جو نہ صرف جسمانی سکون عطا کرے بلکہ’ وارث‘ سے بھی نوازے۔

سوچ کے اس آسمان میں حقیقت کے چاند تارے ٹانکنا آسان کام نہیں تھا۔

لیکن اس مشکل کام کو آسان سے آسان تر بنانے کی جستجو میںہمہ جہت جُٹے رہے۔ جب پہلی بار بیگم سے کہا کہ وہ بیٹے کی شادی کرنا چاہتے ہیں تو اُس نے فوراً منع کر دیا کہ یہ عورت ذات کی توہین ہے۔ بیٹا جب اس لائق نہیں ہے تو شادی کے بارے میںسوچیں بھی نہیں۔ لیکن وہ ماننے والے نہیں تھے۔ رٹ لگائے جارہے تھے: ”اُنھیں ہر حال میں گھر کا’وارث‘ چاہیے۔ چاہے بیٹے سے ملے یا پھر اُن سے۔ لیکن خون اُنھیں کا ہوناچاہیے۔“

”توایسا کرتے ہیں بڑی بیٹی کے ایک بیٹے کو گود لے لیتے ہیں۔“ بیوی نے تجویز سامنے رکھّی۔

”خاندان مردوں سے چلتا ہے، بیگم۔“ بات کو ردّ کرتے ہوے، ”بیٹی اب پرائی ہو گئی ہے۔ اس لیے خاندانی وراثت کی باگ ڈورناتی کو نہیں دے سکتا۔ مجھے اپنا وارث چاہیے جس میںمیرا خون ہو۔“

پہلی بار جب بیگم جانشین دو ماہ کے لیے بستر سے چپک گئیں اور انھیں الگ رہنا پڑا تو نفس بے قابو ہو گیاتھا۔ ایسے میں مکھیا جی بیگم سے بہانہ کرکے بیٹے کو علاج کے لیے شہر لے آئے، جہاںاُن کا دوست عامر رشیدی اس مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑا تھا ۔وہ نیم پاگل دلنشیں صفدر عرف راجا کو ریڈ لائٹ ایریالے گئے۔ پیچھے سے مکھیا جی پہنچے تاکہ اصلیت معلوم ہو سکے۔ طوائف نے بتایا: راجا ذہنی طور پر پاگل ضرور ہے لیکن اس کے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ بیک وقت دو دو عورتوں کو خوش کر سکتا ہے۔“

مکھیا جی کا چہرہ اچانک سپاٹ ہو گیا۔ بیٹے کے علاج میں لاکھوں روپیے خرچ کیے تھے اور اب جب مثبت نتیجہ سامنے آیا توپریشان ہو گئے۔ پھرایک ایسے ڈاکٹر سے رجوع کیا گیاجو پیسوں کے عوض ضمیر بیچتا ہو۔ اُسے بتایا گیا: ”بیٹانیم پاگل ہے اور جنسی دورہ پڑتا ہے۔ ایک دو بار ماں کو پکڑ کر ساڑی تک کھینچ چکا ہے۔ بہنیں اس کے کمرے میں گھسنے سے ڈرتی ہیں۔ پڑوس کی کئی لڑکیوں نے بھی شکایت کی ہے کہ وہ آتے جاتے اُن کا راستہ روک لیتا ہے۔ غلط جگہ پر ہاتھ مارتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب! اب آپ ایسا نسخہ دیں کہ جنسی خواہشات ہمیشہ کے لیے اس کے اندر دم توڑ دےں۔“

”آپ کا بیٹا مطلب میرا بیٹا۔ آپ کی عزّت میری عزّت۔ بالکل بے فکر رہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ نوٹوں بھرا بیگ لیتے ہوے ڈاکٹر نے اپنائیت کا ثبوت دیا۔

چھ ماہ تک وہ بیگم سے جھوٹ بول کر بیٹے کو دوا کھلاتے رہے۔ کورس مکمّل ہونے کے بعد ایک بار وہ دلنشیں صفدر عرف راجا کو لے کر پھرشہر پہنچے۔ اُسے عامر رشیدی کے حوالے کیا۔ وہ اُسے لے کر ریڈ لائٹ ایریا پہنچے اور اُسی طوائف سے ملے۔ جب نتیجہ سامنے آیا تو مکھیا جی خوشی سے اُچھل پڑے۔

خوشیوں کے مدار پرزندگی اب پہلے سے تیز گھوم رہی تھی۔

شہر سے لوٹتے ہی مولانا جا نشین حیدر یعنی مکھیا جی نے سب سے پہلے بیگم کو پسند کی مارکیٹنگ کروائی اور سونے کے زیوارات گفٹ کیے۔بیگم سمجھنے سے قاصرتھی کہ اچانک اُن کے شوہر اُن پر اتنے مہربان کیوں ہیں؟ بِن مانگے زہر نہیں ملتا تو مفت میںسوغات کون دیتا ہے؟

لیکن جب اُس رات بھی بیگم پہلو سے نکل گئی تواُنھیں اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا خوبصورت بہانہ مل گیا:

”یہ ٹھیک ہے، بیگم، کہ صحت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی ہے، لیکن میں تو ابھی پوری طرح تندرست ہوں ۔“

”میری صحت لوٹا دیں۔ ایسا حال تو آپ نے ہی کیا ہے نا جی۔“

”بہانے مت بناؤ۔“

”جب صحت مند تھی توچار چار بچّے بھی دیے ہیں میں نے۔“

”تم سمجھنے کی کوشش کرو ۔“

”آپ بے صبرے ہوگئے ہیں۔ خود کو سمجھائیں۔“

”لیکن یہ عادت کس نے ڈلوائی؟ دیکھو اگر میں کہیں منھ مارنے لگوں تو کیا سمجھتی ہو صرف میری بدنامی ہو گی ۔ تمھاری بھی ہو گی محترمہ! لوگ تھوکیں گے منھ پر کہ عورت ہو کر تم نے اب خوش کرنے کا ہُنر کھو دیاہے۔“

شوہرکی باتوں میںاُسے کچھ حد تک سچّائی نظر آئی۔ جب اُس کے بھائی نے ایک دوسری عورت رکھ لی تھی تو اس کی ماں نے بھی ایسی ہی باتیں بھابی سے کہی تھیں۔ پھر اُسے توشادی سے پہلے ہی سکھایا گیا تھا کہ میاں کی کسی بات کا ’نہ‘ نہیں کرنا کیوں کہ یہ انسانی فطرت ہے کہ پیٹ میں آگ لگے تو اندھیرے میںچوری کر کے بجھاتا ہے۔ پیٹ سے نیچے کی بھوک ہو تو دن میںبھی لوگ بے شرمی پر اُتر آتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس بدنامی کو سہنا اس کے لیے مشکل ہو گا۔ عجیب کشمکش میں وہ کچھ دیر مبتلا رہی۔

”اگر آپ نے ٹھان لی ہے تو سوتن لے آئیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔“

”لیکن تم تو جانتی ہو کہ اب تک گاؤں میں کسی نے نہ کسی کو طلاق دی ہے اور نہ ہی دوسری شادی کی ہے۔ شریعت اپنی جگہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی میرے پاس کوئی بہانہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر گاؤں کا مکھیا ہوتے ہوے میں یہ سب کچھ کروں تو بڑی بدنامی ہوگی۔ رہی سہی ساکھ بھی جائے گی اور آنے والے دنوں میںایم ایل اے کا ٹکٹ بھی۔“

”تو ہفتے میں ایک دو بار کوٹھے پرچلے جایا کرو۔“

”نہیں! کسی نے دیکھ لیا تو جینا دُوبھر ہو جائے گا۔“

”اوربغیر یہ سب کیے خواہشات کی تکمیل بھی توممکن نہیں ۔“

”تم صرف ساتھ دو تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔“

”ارے ! اس سے زیادہ کوئی عورت اور کیا ساتھ دے سکتی ہے؟“

”دیکھو، اپنا راجا نیم پاگل کے ساتھ ساتھ جنسی طور پر مفلوج بھی ہے۔“

”نہیں، آپ غلط کہہ رہے ہیں ۔ میں کئی بار اُسے دیکھ چکی ہوں ۔وہ ہاتھ کا استعمال بخوبی جانتا ہے۔“

”محترمہ!پانچ چھ ماہ قبل مجھے بھی ایسا لگا تھا ۔اور پھر میں نے فیصلہ کیا تھا کہ راجا کی شادی کر دوں گا۔ لیکن پہلے میںپوری طرح مطمئن ہونا چاہتا تھا اس لیے تم سے بہانہ کر کے اُسے شہر لے گیا۔“ وہ کچھ دیر رُکا اور سچ اور جھوٹ کی آمیزش سے ایک نئی کہانی فوراً گھڑلی، ”ڈاکٹر نے معائنے کے بعد مشاہداتی تجربے کے طور پر نرس کو بغیر کپڑے کے اس کے پاس بھیج دیا، اوردوسرے کمرے سے کمپیوٹر اسکرین پر سب کچھ دیکھتا رہا۔ اُس نے تھوڑا بہت اُسے چھؤا ضرور لیکن نرس کی لاکھ کوشش کے باوجود راجاکے اندر وہ سنسناہٹ پیدا نہیں ہوئی جو مردانگی کی علامت ہے۔“

”آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟“

”نیم پاگل اور جنسی مفلوج ہوتے ہوے بھی ہم راجا کی شادی کریں گے۔“

”پاگل تو نہیں ہو گئے ۔ آپ ایک طرف خود کہہ رہے ہیں کہ وہ اس لائق نہیں ہے اور دوسری طرف شادی؟“بیگم نے اپنا سر پکڑ لیا۔

”تم سمجھنے کی کوشش کرو، بیگم جانشین! میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس سے یہ فایدہ ہو گا کہ تُمھیں بیٹھے بٹھائے گھر میں کام کرنے والی نوکرانی مل جائے گی، راجاکے ساتھ تمھارے ہاتھ پاؤں دبائے گی اور ضرورت پڑنے پر میرا بھی خیال رکھّے گی۔“ مسکراتے ہوے، ”پھرگھر کے چراغ کاوہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔’ہینگ لگے نہ پھٹکری ، رنگ آئے چوکھا‘ والی بات۔ سمجھیں، بیگم، بیمار!“

بیگم جانشین عجب کشمکش میںمُبتلا تھی: نہ وہ انکار کر سکتی تھی اور نہ ہی اقرار۔ انکار کی صورت میں سوار کو اپنے اوپربٹھانا ہوتا اور اگر اقرار کرتی تو سوتن کو بہو کا نام دینا ہوتا۔ آخرِ کار اُس نے موت پر زندگی کو اوّلیّت دی ۔ مولانا جانشین حیدر نے بڑھ کرمنھ چوم لیا۔

پھر تلاش شروع ہوئی گاؤں سے باہر کی ایسی خوبصورت لڑکی کی جو نہایت غریب ہو اور ساتھ میں یتیم ہواور سیدھی سادی بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر چند ہی روز میں ایک اٹھارہ انّیس سال کی ایسی ہی لڑکی پسند کر لی گئی۔ بوڑھی نانی کے ساتھ رہتی تھی۔ اُسے دیکھتے ہی مکھیا کے منھ میں لعاب بننے لگا تھا۔ غربت کی وجہ سے بوڑھی نانی اکثر فکر مند رہتی تھی کہ شادی کیسے ہوگی ؟ لیکن جب ایک مکھیا نے اپنی بہو کے لیے پسند کر لیا تو وہ جھومنے لگی تھی کہ لڑکا تھوڑا بہت پاگل ہے تو کیا ہوا، راج تو یہی کرے گی۔ لیکن یہ بات اس نے اپنی نتنی سے اُس وقت چھُپا لی تھی۔

شادی دھوم دھام سے ہوئی۔

دونوں طرف کے اخراجات مکھیا نے ہی اُٹھائے۔

دن بھر عورتوں کا آنا جانا جاری رہا ۔سب کی سب دلھن کی خوبصورتی کے قصیدے پڑھتے نہیں تھک رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ پاگل کی قسمت پر رشک بھی کر رہی تھیں ۔اور کچھ دبی زبان میں دلھن کی قسمت کو کوس رہی تھیں کہ اتنی خوبصورت لڑکی اور پلّے بندھی بھی تو ایک پاگل کے!

سسرال میںارمانوںبھری یہ پہلی رات تھی۔

سیج پھولوں کی خوشبو ؤں سے عطر بیز تھا۔

مہمان جا چکے تھے۔

دلھن ارمانوں سے بھری بیٹھی تھی۔ بیگم جانشین اپنی شادی کے دلچسپ قصّے سنا رہی تھی۔ وہیں پاس میں راجاعجیب وغریب حرکتیں کر رہا تھا۔ دلھن اُس کی حرکتوںپر کبھی ہنس رہی تھی اور کبھی اُسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ روئے یاکیا کرے؟ لیکن اُسے ایک اطمینان تھا کہ ساس کی صورت میں اُسے’ ماں‘ مل گئی تھی۔ سسرکو اس نے پہلے سے دیکھ رکھّا تھا۔ وہ بھی اچھّے لگے تھے۔ ساس بہو میںکچھ ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہو رہی تھیں کہ تبھی اسکرین روشن ہوا اور ساس کے موبائل پر مس کال چمکنے لگی۔

”تُمھارے سسُر کا فون ہے۔ یاد دلا رہے ہیں کہ راجاکے دوا کھانے کا وقت ہو گیا ہے۔“

بیگم جانشین نے شیلف میں رکھّے میڈیسن باکس سے دوا نکالی۔ گلا س میںپانی بھرا اوربیٹے کے حلق میں اُتار دیا۔ کچھ دیربعد غنودگی سی طاری ہو گئی، اور راجا وہیں پلنگ پر ڈھیر ہو گیا۔ ماں نے اُسے پکڑ کر سیدھا کیا۔ سر کے نیچے تکیہ رکھّا۔ دلھن حیرت زدہ یہ سب دیکھتی رہی۔ بیگم جانشین کو سمجھتے دیر نہیں لگی۔ وہ سمجھانے کے انداز میں دلھن سے گویا ہوئی: ”راجا کوہررات دس بجے دوا کھلانی پڑتی ہے۔ دوا کے بغیر اُسے نیند نہیں آتی ہے۔ دماغ سے تھوڑا کمزور ہے۔ کبھی کبھی پاگل پن کا دورہ بھی پڑتا ہے۔ ایسے میںوہ کسی کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ گلا بھی دبا سکتا ہے۔ ایک دو بار اس نے میرے ساتھ بھی ایسا کیا ہے ۔ بہنیں، جب تک بیاہی نہیں گئی تھیں، تب تک اس کی دیکھ بھال کرتی تھیں لیکن وہ سب رات میں کبھی اس کے کمرے میں نہیں گئیں ۔ دوا وہ ہمیشہ میرے ہاتھوں سے کھایاکرتاہے لیکن اب تم آ گئی ہوتودو چار دنوں کے بعد خود سے کھلایا کرنا۔“

دلھن ارمانوں کے سیج سے اُتر کر سوچ کے فرش پر بے چینی سے ٹہلنے لگی تھی۔

آج اُس کی پہلی رات ہے۔ شوہر بھلے نیم پاگل ہی کیوں نہ ہو، اُسے جگا ہوا ہونا چاہیے۔ پاگل پن ایک طرح سے دماغی خلفشار ہے لیکن ایسی رات کا تعلّق دماغ سے کم جسم سے زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن جسم ہی سو جائے تو پھر سارا کھیل ختم۔ اُسے افسوس ہو رہا تھا کہ اگر اُسے پہلے سے معلوم ہوتا تو وہ نو بجے ہی سر درد کا بہانہ کر کے بستر پر لیٹ جاتی۔ کم سے کم ایک گھنٹہ تو اُس کے حصّے میں آتا۔ اُس ایک گھنٹے میں وہ دیکھتی کہ وہ کتنا پاگل ہے۔ سہیلیوں نے کہا تھا مرد کا پاگل پن عورت کی قربت سے دور ہو جاتا ہے۔ وہ آج یہ تجربہ بھی کر کے دیکھنا چاہتی تھی لیکن دیکھ نہیں پائی اس لیے آنکھوں میںآنسو چھلک آئے۔

بیگم جانشین نے اُس کی طرف دیکھا ۔ وہ اُس کی حالت سمجھ رہی تھی ۔لیکن وہ کر کیا سکتی تھی؟ مرد کے ہاتھ کی کٹھ پُتلی جو تھی، بولی: ”تم راجا کو سونے دو۔ صبح جب اُٹھے گا تو پھر اُس کے پاس آ جانا۔ ابھی تم میرے ساتھ نیچے چلو۔ وہاں تمھارے سسُر انتظارکر رہے ہیں ۔ منھ دکھائی میں سونے کا ہار دینے والے ہیں۔ لاکھوں کا ہے۔ کہہ رہے تھے دلھنیا کو صبح ہوتے ہی گھر کی چابی تھما دینا ۔ کل سے وہی اس گھر کی مالکن ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ “ پھر کچھ رُک کراُس کے خوبصورت سراپے کاجائزہ لیتے ہوے، ”میں بیمار رہتی ہوں دلھن۔ اب مجھ سے کام نہیں ہوتا ۔ گھر کا سارا کام تمھیں ہی سنبھالنا پڑے گا ۔ میرے اور راجا کی تو کوئی بات نہیں ۔ تمھیں سب سے زیادہ مکھیا جی یعنی سسر صاحب کا خیال رکھنا ہے ۔ بہت ضدّی ہیں وہ۔ نہیں سننے کی اُنھیں عادت نہیں ہے ۔ گاؤںمیں کوئی اُن کے سامنے منھ کھولنے کی ہمّت نہیں کرتا۔ تم خوش نصیب ہو جو تمھیں ایسا سسر ملا ہے۔ اگر کچھ کہیں تو انکار نہیں کرنا ۔ سر پر بٹھا کر رکھّیں گے وہ تمھیں۔ سمجھیں، دلھنیا!“

اور پھر سمجھا بُجھا کر وہ اُسے اپنے ساتھ اوپر ی منزل سے نیچے لے آئی جہاں پلنگ پر مکھیا جی پاؤں پسارے بیٹھے تھے۔ شیروانی ویسی ہی پہن رکھّی تھی جیسی راجا نے پہنی تھی۔ کمرے میںبہو کا ہاتھ پکڑکر داخل ہوتے ہی بولی:

”چلیے منھ دکھائی نکالیے۔ “چہرے سے سرخ گھونگھٹ پلٹتے ہوے، ”چاند ہے میری بہو۔“

مولانا جانشین حیدرنے تکیے کے بغل میں رکھّے لال رنگ کے مخملی ڈِبّے پر پہلے ہاتھ پھیرا۔ ہتھیلی میںمخملی احساس جا گزیں ہوتے ہی پورے بدن میں مخملی لہر سی دوڑ گئی۔ مخملی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اور پھر سونے کا چمچماتا ہار نکال کر اُس کی طرف بڑھے۔ دلھن تھوڑی شرمائی۔ پھر اپنی گردن سامنے کی طرف جھکا دی۔ ہار پہنانے میں مکھیا جی نے جہاں اُس کی گردن کے بہانے گال کو چھُوا وہیں دونوں سرے پر بنے ایس نُما ہُک کو لگاتے وقت اُس کی پیٹھ کا مخملی لمس بھی حاصل کیا ۔ دلھن کے اندر سِہرن سی پیدا ہوئی ۔ اُسے سسر کا اس طرح سے ہار پہنانا اچھا نہیں لگا تھا لیکن کسی طرح کا کوئی تاثّر چہرے پرنہیں لائی ۔ سوچی، شاید بے خیالی میں ایساہوگیا ہوگا۔

پھر بیگم جانشین نے پیار سے دلھن کا ہاتھ پکڑا اور پلنگ پر بٹھا دیا۔

”بہو رانی! یہ یادرہے کہ تمھاری ضرورت کا سارا خیال تُمھارے سسُر جی رکھّیں گے ۔ ان کے ہوتے ہوے تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ کیو ں، مکھیا جی؟“ بیگم جانشین نے ’کیوں‘ پر زور دیتے ہوے کہا۔

اورمکھیا جی نے دُلھن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوے مسکرا کرحامی بھری ۔

جس انداز میںانھوں نے یہ سب کیا اُسے دیکھ کر دلھن حیران تھی۔ لیکن کچھ ہی ثانیے بعد حیرانی کچھ اور بڑھ گئی جب ساس نے بلائیں لیتے ہوے کہا تھا: ”تمھارے سسُر صاحب کو سونے سے پہلے پاؤں دبوانے کی عادت ہے ۔ آج میں تھکی ہوئی ہوں، تم آگئی ہو تو اس کام کی شروعات آج سے ہی کر لو۔ کل سے تو تمھیں پورا گھر سنبھالنا ہے۔“

بیگم جانشین کے اتنا کہتے ہی مکھیا جی نے اپنے پاؤں پسار دیے۔ دلھن کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے، لیکن ساس کا حکم تھا، ٹال نہیں سکتی تھی۔ پھر پہلے ہی اُسے بتا دیا گیا تھا کہ سسر صاحب کو نہ سُننے کی عادت نہیں ہے ۔ انکار کی صورت میں غریبی کی دلدل اوربوڑھی نانی سامنے تھی ۔ وہ کچھ سوچتی ہوئی آگے بڑھی ۔ جھجھکی اور پھر آہستہ آہستہ پاؤں دبانے لگی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے باپ کا چہرہ آگیا تھا، وہ مسکرانے لگی تھی۔

لیکن اُس وقت مولانا جانشین حیدرکے دل کے اندر لڈّو پھوٹنے لگے تھے۔ اُنھیں لگا کہ لاکھوں کا ہار کام آگیا ہے اس لیے اُنھوں نے آنکھوں ہی آنکھوں سے بیوی کو اشارہ کیا تاکہ وہ راجاکی حقیقت آ شکار کر دے اور اُن کا کام آسان ہو جائے۔

بیگم جانشین نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی، پھر جماہی لی، جیسے تھکے جسم کی شاخوں پر نیند کا پرندہ بیٹھنے والا ہو۔ بھاری پلکوں پر ہاتھ پھیرتے ہوے دلھن کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا، پھر سہلاتے ہوے بولی:

”بہو، تم تو جانتی ہو کہ خاندان مردوں سے چلتا ہے۔ میری صحت ایسی نہیں کہ اس گھر کو دوسرا وارث دے سکوں۔ رہی بات راجاکی، تو وہ اُس لائق نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ “ کہتے کہتے بیگم جانشین کی سانسیں تیزتیز چلنے لگی تھیں۔ وہ کچھ ثانیے کے لیے رُکی اور پھر ایک لمبی سانس چھوڑتے ہوے بولی، ”اب اس گھر کی عزّت تمھارے ہاتھ میںہے ۔ کل ہو کر تمھیں ہی سارا سُکھ بھوگنا ہے۔ یہ ساری دولت، یہ ساری جائیداد تمھاری ہونے والی ہے۔ میرا کیا ہے، آج ہوں کل نہ رہوں، اس لیے اس بیمار ساس کی التجا ہے جس طرح سے بھی ہو سکے اس گھر کو ایک وارث دے دو ۔۔۔۔۔۔۔۔ “پھر رُخ بدل کر، ”کیوں، مکھیا جی ، میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا؟“

”ہاں دلھن! صرف ایک بچّہ ۔“ مکھیا جی نے ملتجی نگاہوں سے دیکھا۔

”بچّہ!“ دلھن کے منھ سے اس طرح بے اختیار نکلاجیسے یہ بھی کوئی بات ہوئی۔

ُُ”ہاں، بچّہ!“ دونوں کے منھ سے یکبارگی نکلا۔

پھر بیگم جانشین نے حوصلہ بڑھانے کے انداز میں اُس کی پیٹھ تھپتھپائی اورجب مثبت ردِّعمل سامنے دکھائی دینے لگا تب وہ باہر جانے کے لیے تیزی سے مڑی ۔ مولانا جانشین حیدر عرف مکھیا جی عین اُسی وقت ہاتھ پکڑ کرپیار سے قریب کرنے والے تھے، بازوؤں میں بھرکر محبّت لُٹانے والے تھے کہ تبھی نئی نویلی دلھن خوشی سے پاگل ہو گئی، جھومنے لگی اور جھومتے جھومتے خود بخودمکھیا کی بانہوں میں چلی آئی۔ پہلے اِٹھلائی، پھرسینے اور کمر کے درمیان ہاتھ رکھتے ہوے مسکرائی اور بولی:

”آپ لو گ پریشان نہ ہوں۔ میں اپنے گھر کا چراغ ساتھ لائی ہوں ۔“ اور تیزی سے اُوپری منزل کی سیڑھیاں چڑھنے لگی!