گل گامیش کی داستان

یہ تحریر 1549 مرتبہ دیکھی گئی

(۲)

ان کدو گل گامیش کے اس خیال سے پریشان تو ہوتا ہے لیکن شمس دیوتا کے سہارے اور گل گامیش کی ماں نن سون اور باپ لوگل باندہ کی دعاؤں کی طفیل حمبابا جیسے طاقتور سورما سے لڑنے کے لیے گل گامیش کے ساتھ رخت جنگ باندھتا ہے۔ یہاں دعا کی فضیلت بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کسی بھی مشکل کو آسان کرنے کے لیے دعا کا تصور سومیری تہذیب میں موجود تھا۔ گل گامیش کے قصے میں مافوق الفطرت عناصر کو جب تعقل کے پیمانے پر جانچا جاتا ہے تو وہ حقیقت محسوس ہوتے ہیں۔

طلسمانہ کی بھی یہی حقیقت ہے کہ بظاہر ناممکنات بعد میں ممکن اور عین حقیقت محسوس ہوں۔ ”گل گامیش کی داستان“ میں منصوبہ بندی ہے۔ کہانی کی کڑیاں باہم پیوست ہیں۔ مشاورت کا پورا ایک نظام ہے۔ سب کچھ آناً فاناً نہیں ہو رہا بلکہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے پورا پورا سوچا جاتا ہے۔ وہ اسفار ہوں یا خواب ان کی تعبیروں میں تخیل حقیقت بن جاتا ہے۔ ”گل گامیش کی داستان“ میں خواب رہبر بنتے نظر آتے ہیں۔ مرکزی کردار جہاں بھی کسی کرب میں مبتلا ہوتا ہے وہ خوابوں سے مدد مانگتاہے اور دیوتا اس کی مدد کرتے ہیں۔ حمبابا جیسے طاقتور دیوتا کے مقابلے میں شمس دیوتا گل گامیش کی ہر ممکن طریقے سے مدد کرتا ہے۔ شمس دیوتا ملک بقا سے گل گامیش کو روکتا ہے۔

”نورانی شمس نے جواب دیا:

تو بے شک قوی ہے،

لیکن تجھے ملک بقا سے کیا سرو کار“

                      (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۳۷)

مگر گل گامیش کے ارادے کی پختگی نورانی دیوتا کو یاوری پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہاں مشیروں کے مشورے بھی دانش سے خالی نہیں۔

”مشیروں نے گل گامیش کو برکت دی اور تنبیہہ کی کہ

”اپنی قوت پر حد سے زیادہ اعتماد نہ کرنا،

ہوشیار رہنا اور ابتدا میں وار سنبھل سنبھل کر کرنا۔

آگے والے کا فرض اپنے ساتھی کی حفاظت کرنا ہے

اور واقف راہ ہی رفیق کا محافظ ہو سکتا ہے،

لہٰذا ان کدو آگے آگے چلے۔

وہ جنگل کی راہ سے آگاہ ہے۔

اس نے حمبابا کو دیکھا ہے

اور جنگوں کا تجربہ رکھتا ہے۔

دروں میں پہلے وہی داخل ہو،

وہ چوکنا رہے۔

ان کدو کو چاہیے کہ اپنے دوست کی نگہبانی کرے

اور اسے راستے کے پوشیدہ خطروں سے بچائے۔

ان کدو! ہم مشیران عروق

اپنے بادشاہ کو تیری حفاظت میں دیتے ہیں

اسے سلامتی سے ہمارے پاس واپس لانا۔“

                        (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۴۳)

داستان کی روانی اور مکالموں کی بے ساختگی ”گل گامیش کی داستان“ کو کسی آج کل کے قصے کے قریب کر دیتی ہے۔ اس داستان کی مدد سے ہم انسان کے ماضی میں جھانک سکتے ہیں کہ اس کے سوچنے کا انداز کیا تھا؟ اس کی منصوبہ بندی کی نوعیت کیا تھی؟غرض گل گامیش کتنے ہی مختلف ذہنوں کی تخلیق کیوں نہ ہو، سوچ کی ایک اکائی ایسی ہے جس کے ساتھ ساری داستان جڑی ہوئی ہے۔ کرداری انتشار بالکل نہیں۔ہر کردار کی اپنی اپنی ترجیحات اور اعمال ہیں جو اسے سونپے گئے ہیں اور انھیں وہ انجام دے رہا ہے۔پوری داستان میں گل گامیش ایک متفکر او ر متحر ک کردار کے طور پر اپنے حصے کی کہانی کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ان کدو جب گل گامیش کو خطرات سے ڈراتا ہے اور حمبابا کی وحشت کو بیان کرتا ہے تو اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ گل گامیش اس مہم سے توبہ کر لے لیکن گل گامیش اسے جواب دیتا ہے کہ ٹھیک ہے منزل مشکل ہے،راستہ پر خطر ہے مگر جب ایک دفعہ ہمت باندھ لی جائے تو پسپائی گناہ ہوتا ہے۔ میں اتنا احمق نہیں کہ اپنی جان ضائع کرنے پر تلابیٹھا ہوں۔

”میں دھن کا پکا ضرور ہوں

مگر اجڈ اور احمق نہیں ہوں۔

دو آدمی ساتھ چلیں توہر ایک اپنا بچاؤبھی کرتا ہے

اور دوست کی سپر بھی بنتا ہے۔

اور اگر وہ جنگ میں کام آئیں

تو ان کا نام باقی رہ جاتا ہے۔“

                         (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۴۶)

گل گامیش کو حمبابا پر فتح حاصل ہو جاتی ہے۔ حمبابا معافیاں بہت مانگتا ہے مگر ان کدوگل گامیش کو حمبابا کی موت ہی کا مشورہ دیتا ہے۔ گل گامیش اگر چہ اسے چھوڑ دینا چاہتا ہے مگران کدو:

”ان کدو نے جواب دیا:

”اگر قوت فیصلہ نہ ہو

تو قوی ترین انسان بھی قسمت سے مار کھا جاتا ہے۔“                         (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۵۵)

حمبابا اور ان کدو کا مکالمہ بھی آج کل کی معاشرت سے خاصا قریب ہے۔ کیوں کہ حمبابا جان جاتا ہے کہ ان کدو اسے مروانا چاہتا ہے۔

”ان کدو، تو شر انگیز باتیں کرتا ہے

بھاڑے کا ٹٹو! اپنی روٹی کے لیے دوسروں کا محتاج!

تونے حریف کے خوف اور رشک سے

یہ کلمات بد زبان سے نکالے ہیں“

ان کدو نے کہا:

”گل گامیش! اس کی نہ سن

حمبابا کو مرنا ہی ہوگا۔“          (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۵۵)

اور آخرمیں:

”گل گامیش نے اپنے ساتھی کا مشورہ قبول کرلیا۔

اس نے تیشہ سنبھالا اور شمشیر کو بے نیام کیا

اور حمبابا کی گردن پر ضرب لگائی

اور اس کے رفیق ان کدو نے دوسری ضرب لگائی،

تیسری ضرب پر حمبابا گر پڑا

اور ہلاک ہو گیا۔“      (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۵۶)

داستان کا تیسراحصہ محبت کی دیوی عشتار سے متعلق ہے۔ عشتار کا کردار اپنے باطن میں عورت کی نفسیات کی بعض ایسی گرہوں سے واقف کراتا ہے جن کو ہم آج تک نہیں سلجھا سکے۔ عورت ایک مقام پر انسان کی موت بن جاتی ہے۔ لیکن پتا نہیں کیا بات ہے آج بھی انسان اس دام سے بچ نہیں پاتا۔تھوڑا سا وقت گزرتا ہے کہ انسان عورت کے پہنچائے ہوئے سارے دکھ بھول جاتا ہے۔ سارے دام سہانے لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔

عشتار خوش شکل دیوی ہے، جو گل گامیش کو اپنے حسن کے جال کا اسیر بنانا چاہتی ہے مگر گل گامیش زیرک اور دانا ہے۔ وہ عشتار کو اس کی ماضی کی محبتوں کی داستان سناتا ہے کہ تم نے کس کے ساتھ وفاکی ہے۔ اس میں گل گامیش عورت کی نفسیات پر بڑی بصیرت افروز باتیں کرتا ہے۔

”تو وہ انگیٹھی ہے جو سردیوں میں ٹھنڈی رہتی ہے،

وہ پائیں دروازہ ہے

جو ہوا کے جھونکوں اور گرد کے طوفانوں کو

اندر آنے سے نہیں روکتا۔

ایک محل جو اپنی پاسبان فوج پرآفت ڈھاتا ہے

تارکول سے بھرا ہوا مٹکا جسے اٹھاؤ

تو کپڑے اور جسم سب کالے ہو جاتے ہیں۔“

                                       (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۵۸)

گل گامیش دلائل سے عشتار کو جواب دیتا ہے۔اور ایک ایک عاشق کا حال بتاتا ہے کہ جس سے تو نے محبت کی وہ پامال ہوگیا۔ گویا ہرجائی لوگ فرد کو پامال کر دیتے ہیں۔ بے جرم و خطاپامالی کتنی بھیانک اور کرب نا ک ہوتی ہے۔

”تموز کا حال سن،

جو تیرے عہد جوانی میں تیرا عاشق تھا

تو اسے سالہا سال رلاتی،تڑپاتی رہی۔

تو نے طائر  ہفت رنگ سے عشق کیا

اور پھر اس کے بازو توڑ دیے

اور اب وہ باغ میں بیٹھا ”میرے بازو،میرے بازو“پکارتا رہتاہے

تب تونے ایک قوی ہیکل شیر سے عشق کیا

پھر اسی کے لیے سات اور سات گڑھے کھودے۔

تب تو نے ایک اسپ نر سے عشق کیا

جو جنگ میں شہرت پا چکا تھا

مگر انجام کار اس کی تقدیر میں مہمیز، چابک اور چمڑے کاہنٹر لکھا گیا۔“               

                               (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۵۸-۱۵۹)

غرض عشتارکے عشق کی لمبی داستانیں ہیں جن پر گل گامیش کھل کر روشنی ڈالتا ہے۔ عشتار گل گامیش کی سردمہری اور سچائی کے بیان سے بہت سیخ پا ہوتی ہے۔ یعنی اگر گل گامیش اس کی قربت حاصل کرلیتا تو سب درست تھا مگر دوسری صورت درست نہیں۔عشتار سخت برہم ہوتی ہے اور اپنے باپ سے اس ”گستاخی“ کی شکایت کرتی ہے کہ اس نے مجھے بدنام کیا ہے۔ اے میرے باپ انو مجھے ثور فلک عطا کر تاکہ میں اپنی بد نامی کا بدلہ لے سکوں۔ عشتار کا باپ اسے تلقین کرتا ہے کہ اگر تجھے ثور فلک عطا کیا تو کچھ عرصہ تک مخلوق کے لیے اناج نہیں اگ سکے گا۔ پہلے اناج کا بندو بست کر پھر تجھے ثور فلک عطا کروں گا۔ عشتار اناج کے بندو بست کا یقین دلاتی ہے جس پر اسے ثور فلک دیا جاتا ہے، جو تین حملوں میں کئی سو بندے مارتا ہے۔ بالآخر گل گامیش اور ان کدو ثور فلک کو مار دیتے ہیں اور عشتار کوناکامی کا منھ دیکھنا پڑتا ہے۔لیکن یہ سب کارروائی ان کدو کی موت بن جاتی ہے جو گل گامیش کا دوست ہے۔ عشتار دیوتاؤں سے فریاد کرتی ہے اور دیوتا مجلس شوریٰ بلاتے ہیں۔ ان کدو گل گامیش سے کہتا ہے۔

”اور جب صبح ہوئی تو ان کدو نے گل گامیش سے کہا:

رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا:

انّو، ان لیل، ایااور شمس مجلس شوریٰ میں بیٹھے تھے

اور انّونے ان لیل سے کہا:

انھوں نے ثور فلک اور حمبابا کو ہلاک کیا ہے

لہٰذا دونوں میں سے ایک کو مرنا ہوگا۔“

          (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۶۳)

اورپھر علالت کے بعد ان کدو مر جاتا ہے جس پر گل گامیش کو بہت صدمہ پہنچتا ہے۔ وہ ان کدو کا مجسمہ بنواتا ہے اور ان کدو کا شمس دیوتا کو نذرانہ پیش کر دیتا ہے۔ یہاں عورت بغیر کسی وجہ کے موت بن جاتی ہے۔ یعنی جس نے عورت کے مکروفریب کا پردہ چاک کیا، عورت اس کی دشمن بن جاتی ہے اور اس کو تباہ کرنے کی منصوبہ ساز بھی بن جاتی ہے۔عورت کے مکر و فریب کو سورۃ یوسف میں بیان کیا گیا ہے اور اس کے مکر سے پناہ مانگی گئی ہے۔ عشتار قدیم زمانے کی عورت ہے مگر آج کے مہذب معاشرے میں صورت حالات مختلف نہیں۔ وہی عورت کے مکرہیں، بہکاوے ہیں، جو نت نئی صورتیں بدل کر معاشرے میں اپنے وجود کا احساس دلائے جا رہی ہے۔

داستان کا چوتھا حصہ حیات ابدی کی تلاش سے متعلق ہے۔ گل گامیش ان کدو کی موت سے بہت رنجیدہ ہے اور اپنے انجام سے بہت خائف ہے کہ میری لاش میں بھی کیڑے پڑیں گے جیسا کہ ان کدو کے ساتھ ہوا۔ وہ حیات ابد ی کی تلاش میں نکلتا ہے جس میں مصائب و آلام سے اس کا واسطہ پڑتا ہے۔ سفر کے آغاز میں بچھوؤں کے علاقے سے گزرنے پر نر بچھو گل گامیش سے مخاطب ہوتا ہے:

”نر نے اپنا منھ کھولااور گل گامیش سے کہا:

عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے والے کسی انسان نے

آج تک وہ نہیں کیا جو تو چاہتا ہے۔

فانی انسان اس پہاڑ کو عبور نہیں کر سکتا۔

اس کا اندھیارہ اٹھارہ کوس لمبا ہے۔

اس تاریکی میں اجالے کا گزر نہیں،

اس تاریکی سے دل بیٹھنے لگتا ہے۔

طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک وہاں کوئی روشنی نہیں ہوتی“

گل گامیش نے کہا:

مجھے خواہ رنج پہنچے یا تکلیف،

میں خواہ کراہتا ہوا جاؤں یا روتا ہوا،

پھر بھی مجھے وہاں پہنچنا ضرور ہے۔

لہٰذا پہاڑ کا پھاٹک کھول دے۔“

                               (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۷۶)

گل گامیش راستے کے مصائب جھیلتا ہے۔ اسے کسی نے بتایا ہے کہ اس کائنات میں اتنا پشتیم ایسی ہستی ہے جسے دیوتاؤں نے حیات دوام بخشی ہے۔ نر دیوتا گل گامیش کو مشودیوتا کے بارے میں بتاتا ہے۔ مشوسے رہنمائی حاصل کرنے کے بعد گل گامیش شراب بنانے والی دیوی سدوری تک پہنچتا ہے۔ سدوری گل گامیش کو بتاتی ہے کہ کئی کالے کوس کاٹنے کے بعد تم ارشابنی سے ملناجو اتنا پشتیم کا ملاح ہے اور وہ تمھیں سمندری سفر طے کرانے کے بعد اتنا پشتیم تک لے جائے گا۔ گل گامیش راستے کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد اتنا پشتیم تک پہنچ جاتا ہے۔اتنا پشتیم گل گامیش سے مخاطب ہوتا ہے۔

”اتنا پشتیم نے کہا:

دنیا میں کسی شے کو ثبات نہیں ہے

کیا ہم گھر اس لیے بناتے ہیں کہ وہ ابد تک قائم رہے؟

کیا ہم معاہدے پر مہر اس لیے لگاتے ہیں

کہ وہ دوامی ہو جائے۔

کیا بھائی اپنی موروثی جائیداد کو آپس میں اس لیے بانٹتے ہیں

کہ وہ سدا محفوظ رہے۔

کیا دریا میں سیلاب ہمیشہ رہتا ہے؟

تتلی اپنے خول سے نکلتی ہے

تاکہ سورج کے چہرے کو بس ایک نظر دیکھ لے

ازل سے آج تک کسی چیز کو ثبات نصیب نہیں ہوا ہے۔

سوئے اور موئے آدمی میں کتنی مشابہت ہے!

درُباری ہوں یا بازاری،دونوں کی تقدیر میں فنا ہے،

مرتے وقت دونوں یکساں ہوتے ہیں۔“       (سید سبط حسن،۱۹۶۲:۱۸۹)

جاری ہے۔۔۔۔۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/