کیسے کیسے عہد ساز لوگ اُٹھتے جاتے ہیں۔۔۔

یہ تحریر 2506 مرتبہ دیکھی گئی

طارق عزیز کے بعد ایک اور بچپن کی یادوں کا اثاثہ چِھن گیا۔۔۔عاشور کے جلوس سے تھک ہار کر گھر پہنچتے تو انتظار ہوتا کہ اب علامہ طالب جوہری مجلسِ شامِ غریباں سے خطاب کریں گے۔۔۔۔تحریم منیبہ کی پُر سوز آواز ۔۔۔آں امامِ عاشقاں پُورِ بتول۔۔۔۔۔۔۔تھکن سے نیند بار بار غلبہ کرتی۔۔۔جب قصد کیا نہر کا سقّائے حرم نے۔۔۔یہ طارق عزیز کی اُلوہی آواز میں میر انیس مرثیہ پڑھ رہے ہیں۔۔آخر انتظار ختم ہوتا اور علّامہ صاحب برہنہ سر منبر افروز ہوتے کہ یہ برصغیر کی تشیع میں خاص روایت ہے کہ مصائبِ حُسین ع میں برہنہ سر رہتے ہیں اور اس کی بنیاد جنابِ ابنِ عبّاس رض کا وہ خواب ہے جس میں انھوں نے روزِ عاشور اکسٹھ ہجری کو عالمِ رویہ میں جنابِ ختمئ مرتبت ص کو بالِ پریشاں خاک بسر خونِ شہیدانِ کربلا جمع کرتے دیکھا تھا۔۔۔مخصوص طرز سے علامہ خطبہ پڑھتے اور پھر عزیزانِ محترم کہہ کر خطاب شروع ہو جاتا۔۔میرا جیسے فریضہ ادا ہو گیا پانچ سات منٹ میں میری آنکھیں بوجھل اور پھر آنکھ کُھلتی تو۔۔۔سلام خاک نشینوں پہ سوگواروں کا۔۔۔۔یہ ناصر جہاں کی پُر درد آواز ہے۔۔۔۔

علامہ طالب جوہری جب کبھی مجالس کے لیے لاہور تشریف لاتے تو میں اپنے استاد اور چچا سید شباہت حسین زیدی صاحب مرحوم کے ساتھ مریدکے سے جاتا۔ایک بار الحمرإ میں عظیم الشان سیمینار تھا تب میں نے علّامہ صاحب سے پہلی اور آخری بار مصافحہ کیا اور قریب سے دیکھا چھوٹا سا قد خشخشی ڈاڑھی۔۔اُس سیمینار میں لاہور کے سب شعبہ ہائے زندگی اور تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں کا جمِّ غفیر تھا۔۔علّامہ کا خاصّہ یہ تھا کہ اُن کے سامعین صرف شیعہ نہ تھے ہر مکتب کے وسیع المشرب افراد نے زندگی میں کم از کم ایک دفعہ ضرور قبلہ مرحوم کی مجلس سُن رکھی ہو گی۔۔۔

ایک راز سے پردہ اُٹھاٶں کہ مجھے بچپن سے خطابت کا شوق تھا اور کئی بار مجالس کی نظامت کے علاوہ خود مجالس پڑھیں بھی۔۔علّامہ مرحوم کا لہجہ میری زبان پہ آج تک بڑا رواں ہے۔۔حافظہ اچھا تھا تو اکثر ابوطالب جوہر یعنی علامہ طالب جوہری صاحب کی مجالس ایک بار سُن کر عین بعین حفظ ہو جاتی تھیں۔۔۔پھر بوجوہ میں نے دشتِ خطابت کو خیر باد کہہ دیا اور متلوّن مزاجی تا حال کشاں کشاں لیے پھرتی ہے۔۔

علامہ صاحب کے تین مستقل حوالے ہیں خطیب عالم اور شاعر۔۔۔خطابت کو علمیت سے الگ اس لیے قرار دے رہا ہوں کیونکہ میں آگاہ ہوں کہ وہ کس قدر بڑی علمی شخصیت تھے لیکن اکثر عوامی سطح کی رعایت کرتے ہوئے مجالس میں اپنی علمی سطح سے بہت نیچے آ کر گفتگو کرتے۔۔۔یہ بہت بڑی اور مشکل بات ہے ورنہ تو کم علم بھی لوگوں پہ دھاک بٹھانے کو موشگافیاں کر لیا کرتے ہیں۔۔۔آج ابا جی سے فجر کی نماز کے بعد بات ہوئی تو کہنے لگے علامہ رشید ترابی کے بعد اگر کسی نے اُن کے خلا کو پُر کیا تو وہ طالب جوہری ہی تھے۔۔۔یہ ایک کتاب جس کی تصویر شیئر کر رہا ہوں میری استاد کتابوں میں سے ایک ہے۔۔منطق کے علم پہ میرے کتب خانے میں چھوٹی بڑی پچیس سے زیادہ کتابیں ہوں گی لیکن عقلیاتِ معاصر نہ ہوتی تو میں جو اِس علم کی ابجد جانتا ہوں وہ بھی نہ جان پاتا۔۔۔اور بھی بہت کچھ لکھنے کو ہے لیکن بس۔۔۔دبیر کے شعر پہ اختتام کرتا ہوں

جو بھی مصروفِ سلامِ شہدإ رہتا ہے

گو وہ رہتا نہیں پر نام سدا رہتا ہے۔۔

اللہ تعالی علامہ مرحوم کو حضرت ابا عبداللہ الحُسین علیہ الصلوة والسلام کے زمرے میں قرار فرمائے۔۔۔