کہانی در کہانی

یہ تحریر 402 مرتبہ دیکھی گئی

پانچویں کہانی :Blessing Disguise- استنبول( قسطنطنیہ) کی کہانی :: کہانی کامطلب کوئی کہی یاسنی ہوئی بات یا قصہ ہوتاہے- اس کی بنیاد ہمیشہ انسانی مشاہدات اورتجربات ہوتےہیں-اس کا شمار قدیم ترین اصناف ادب میں ہوتاہے-کہانی کا دائرۂ کار وسیع ،اثرات دور رس ہوتے ہیں-اسی لئے گئے زمانے کے والدین رات کوبچوں کوسلانے کےلئےکہانیاں سنایا کرتےتھے یہ کہانیاں اُن کی ذہنی تربیت میں اہم کرداراداکرتی تھیں بچے کہانیاں سنتے سنتے نیند کی گہری وادیوں میں پہنچ جاتے،والدین کہانی مکمل کرنے کی فکر کرتے رہتےلیکن بعض اوقات یہ بھی ہوتا تھا کہ بچےکہانی بڑےغور سےسن رہےہوتے اوروالدین خود ہی کہانی کہتے کہتے سوجاتے بقول ثاقب لکھنوی:

زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

کہانی کا ذکرمیرنے بھی بڑے منفرد اندازمیں کیا ہے-

سب سرگزشت سن چکے اب چپکے ہو رہو

آخر ہوئی کہانی مری تم بھی سورہو

اُن دنوں کہانی کا آغاز اس جملے سے ہواکرتاتھاکہ ایک تھا بادشاہ ہمارا تمہاراخدابادشاہ مگر آج کل تو ہم خود خدا بنے بیٹھے ہیں-پھر آگے چل کر دعا مانگی جاتی تھی کہ یاالللہ سب کا بھلا، سب کی خیر -یہ باتیں یہاں چھوڑ کرہم اپنی کہانی شروع کرتے ہیں-یہ قسطنطنیہ کی سیر کی کہانی ہے جو دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہےاورموجودہ دور میں اسےاستنبول کہاجاتا ہے، ویسے بچپن میں پہلےہی ہم نے اپنی اماں سے قسطنطنیہ کی بہت سی کہانیاں سن رکھی تھیں اور یہ طلسماتی شہر ہمیشہ خوابوں میں ہمیں ہانٹ کرتا تھا-

کہانی کا آغازامریکہ سے ہوتا ہے جہاں ہم چھٹیاں گزارنے بیٹے کے پاس گئے تھے-اگست کے دوسرے ہفتے تک قیام کے بعد ہم نے واپسی کے لئے رخت سفر باندھا، ترکی ائیر لائینز کی یہ پروازسیاٹل سےبراہ راست لاہور کے لئےتھی،درمیان میں ڈیڑھ گھنٹہ استنبول میں قیام تھا جواگلی فلائٹ پکڑنےکےلئےکافی مناسب وقت تھامگر شومئی قسمت سیاٹل سےفلائٹ ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے چلی-عام طور پر اتنے لمبے سفر میں اس تاخیر کا ازالہ ممکن ہوتا ہے مگر اُس دن بارہ گھنٹے کی مسلسل پرواز کے باوجود اس تاخیر کا ازالہ نہ ہو سکا اور جہاز کے نیچے اُترنے سے پہلے ہی لاہور کا جہاز اُڑان بھر چکا تھا،اب نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن لیکن دیکھئےالللہ کی قدرت کہ اُس نےہمارےلیے کیا کیا چھپا کر رکھا ہوتاہے،جو بات ہمیں بری لگتی ہے ہمیں کیامعلوم کہ الللہ نے اُس میں ہمارے لئے کیا خوبی چھپا کر رکھی ہو:

عَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ-القرآن

(ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمھارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اوروہ تمھارےلیے بری ہو اور الللہ جانتا ہےاورتم نہیں جانتے) پس منظراس قصے کا یہ ہے کہ ایک مدت سےہماری اور ہم سے زیادہ ہماری بیگم فارحہ کی ترکی دیکھنے کی خواہش تھی مگر کسی نہ کسی بہانے پروگرام بنتے بنتےرہ جاتا تھاشایدالللہ کواس کےلئے ہماری اپنی گرہ سے پیسےخرچ کروانا مقصود نہ تھاترکی کی سیاحت کےلئےمعروف یونیورسل ٹریولز کےانیس صاحب جو میرے پرانے ملنےوالےہیں ہمیشہ کہتےرہتے تھےڈاکٹرصاحب آپ پوری دنیادیکھ آئے ہیں مگرترکی نہیں گئےحالانکہ کئی دوستوں، عزیزوں کومیرے ذریعے وہاں بھجواچکےہیں- اُن کےاصرار پر اواخر ۲۰۱۹میں بالآخرپروگرام فائنل ہوا-میں چیک دینےکےلئے اُن کے دفتر پہنچا تو کہنے لگے قذافی سٹیڈیم میں میچ کی وجہ سےآج تمام راستے بند ہیں اور میرا کیشئیردفترنہیں آیا-کوئی بات نہیں پیسے آجائیں گے بس آپ تیاری پکڑیں،تیاری پکڑ ہی رہےتھے کہ اگلےہفتے کرونا کی موذی وبانے پوری دنیا کوپکڑ کیاجکڑ لیا اور ہماراترکی کا پروگرام غتر بود ہوگیا-اگلے دوڈھائی سال جیسےکٹےاظہرمن الشمس ہے،بقول علامہ اقبال-

یہ گنبدمينائی،يہ عالم تنہائی/ مُجھ کوتوڈراتی ہےاس دشت کی پہنائی-

خداخدا کرکےاس موذی مرض سے جان چھوٹی اوردنیاکی رونقیں بحال ہوئیں توسب لوگوں نے سجدۂ شکر اداکیا-کہانی کو پھر وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں چھوڑی تھی-اب جہاز سے اُتر کر جب ہم ترکی ائیر لائن کے انفارمیشن ڈیسک پر پہنچے تو بتایا گیاکہ اگلے دن کے لاہور جانے والے جہاز میں ہماری سیٹیں بُک ہو گئی ہیں رات کے قیام کےلئے ہوٹل بکنگ بھی کروادی گئی ہے-ویزاآن لائن مل جائے گاکیونکہ آپ کا امریکی ویزا لگا ہوا ہے مگر یہ آپ کوخود لگواناہوگا،بیٹوں علی اورحسن کی ہماری فلائٹ پرمسلسل نظر تھی چنانچہ جونہی یہ نئی صورتحال سامنے آئی حسن نے تُرت سیاٹل ہی سے ہمارےترکی کے ویزے لگوا دئے اور ہم بلا ترددائیرپورٹ سے نکل کر ترکی ائیر لائنز کی کوسٹر میں بیٹھے،اور وہ خراماں خراماں استنبول کی بڑی سڑک پردوڑنے لگی- اتاترک ائیر پورٹ سےہوٹل کا دس پندرہ منٹ کا فاصلہ تھااور ہم جلد ہی پہنچ گئے کوسٹر سے اُترےتواستنبول کی خنک دوستانہ ہواؤں نے استقبال کیااور ہوٹل کے انتہائی مہذب اورخوش مزاج عملےنےدلآویزمسکراہٹوں کے جلو میں منٹوں سیکنڈوں میں کمرہ نمبر ۴۰۱ میں ہمیں پہنچا دیا-

ہوٹل میں ڈنر کرنےکے بعد ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ہم استنبول کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے مگر دل میں پرانی خواہش انگڑائیاں لے رہی تھی کہ قدیم استنبول کی سیاحت کی جائے کیونکہ اس سے اچھا موقع پھر کہاں ملناتھا-ہوٹل کے مینجر سے بات کی جوعام ترکوں کی طرح نہایت خوش اخلاق اورتعاون کرنے والا انسان تھا-اُس نے فوری طور پر ہمارے لئے گائیڈڈ ٹؤرکا بندوبست کردیا-بس اگلے دن صبح سویرے بہت عمدہ گاڑی ہمیں لینے کے لئے آگئی-گائیڈ مودب نوجوان تھاجوانگریزی بخوبی جانتا تھاہوٹل کی لابی میں اُس سے سےملاقات کی اور پھر ہم تھےاور استنبول کی سڑکوں پر رواں دواں ہماری کار،منزل قدیم شہر تھا جہاں ہم کم و بیش دو گھنٹے میں پہنچ گئے- کارسےکیااُترےکہ میں ایک طلسماتی دنیا میں پہنچ گئےجوکبھی خوابوں میں آیا کرتی تھی اس دلکش دنیا کی سیر میں چار پانچ گھنٹے صرف ہوئے،دل توچاہتا تھا کہ بس یہیں کے ہو رہیں کہ یہاں کا چپہ چپہ دامن دل کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا-نظیری نیشا پوری کے بقول :کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست-مگر واپسی کی فلائٹ پکڑنی تھی،تھوڑے کو بہت جانتے ہوئے واپس ہوئے مگر خوشی اس بات کی تھی کہ الللہ نےغیب سے کچھ ایسےاسباب پیداکر دئے کہ ہم نے اپنی بچپن کی کہانیوں اوراپنے خوابوںں کےطلسماتی شہر قسطنطنیہ کی مختصروقت میں سیرکرلی،یوں ہماری دیرینہ خواہش پوری ہوگئی-اس دن ہم نے آیاصوفیہ،سلطان احمت کی مسجد،سلطان احمت مدرسہ، ٹوپکاپی محل،گرینڈ بازار، نیلی مسجداور دیگر قدیم آثارکوبہت شوق سےدیکھا اور اپنی دیرینہ آرزوپوری ہونےپرالللہ کا شکر ادا کیا،پھر ہوٹل کی راہ لی-اسے کہتے ہیں: Blessing Disguise-