کس کی تحویل میں تھے، کس کے حوالے ہوئے لوگ

یہ تحریر 2417 مرتبہ دیکھی گئی

دُنیا کی معاشی سرحدوں پر امریکی ڈالر اور چائنیز یوآن کی چھڑپیں اٹل جنگ کی صورت اختیار کر چُکیں ہیں۔ ہمارا سیارہ ماحولیاتی آلودگی، جنگلات کی قلت، گلیشئیرز کے پگھلاؤ، پانی کے بُحران، زرعی اراضی کی رہائشی آبادیوں میں تبدیلی، سوشل میڈیا کا جدید سماجی نفسیات پر دباؤ اور بے تحاشہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے گرداب میں ڈوب رہا ہے۔ پٙر ساہنوں کیہ؟ بقول نور الھدیٰ شاہ “‏یہ تو طے ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں اور نوجوانوں کی اکثریت خارجہ پالیسی، اقلیت کےمعاملات، این ایف سی ایوارڈ، ملکی بجٹ پردفاعی بجٹ کا دباؤ، میڈیا کی آزادی، ملک پر دہشتگردی کا الزام، فرقہ واریت، سرحدوں پرتناؤ، بلوچستان معاملہ، پاکستان کی تنہائی، خصوصاً ڈکٹیٹرشپ اور ڈکٹیشن وغیرہ سے نہ تو دلچسپی رکھتی ہے، نہ ہی سمجھ پاتی ہے۔”

پاکستان میں کسی ادارے نے یہ ذمہ داری محسوس نھیں کی کہ اپنے عوام کو معاشی اور سماجی سرحدوں کے اندر باہر پُھنکارتے اِن عفریتوں کے بارے میں آگاہی دیں۔ نظریاتی سطح پر اپاہج کمرشل میڈیا کے ذریعے رائے عامہ پر سنسرشپ برقرار رکھنے کا تقاضا بھی یہی ہے۔ عوامی سوچ کو جکڑو، معاشرے میں جہالت اور عدم برداشت کی سرپرستی کرو، جاہل اور جرائم پیشہ افراد کو بااختیار بنا کر سنگھاسن پر بٹھاؤ اور قومی و مذہبی نظریے کے تحفظ کے نام پر متنوع سوچ کی ہر کرن کو گُل کر دو۔

جدید سیاسی اقتصادیات کا صرف ایک ایجنڈا ہے، دولت کے ذریعے طاقت اور طاقت کے ذریعے مذید دولت کا حصول۔ اسی سبب دُنیا کے بیشتر مُمالک میں نظریاتی راہنماؤں کو کاروباری شخصیات کے اتحاد نے پِچھاڑ دیا ہے جن کا مُفاد عوامی فلاح کے نعرے بُلند کر کے لوگوں کو مُفلس اور مقروض رکھنا ہے۔ بیشتر مُمالک میں معیشت پر قابض تجارت پیشہ افراد اور عسکری طاقتوں کے گٹھ جوڑ مصنوعی اقتصادی انتشار پیدا کر کے کٹھ پُتلی حکمرانوں اور عوام کے مابین ازسرِ نو عمرانی معاہدے کی تجدید کرواتے ہیں جس کا مقصد عوام کو ایک اکائی کے طور پر یکجا کرنا نہیں بلکہ (انہی طاقتوں کی سرپرستی میں پِچھلی حکومتوں کے چڑھائے ہوئے) ٹیکس اور قرضوں کا بوجھ ڈھونے کے لیے تیار کرنا ہے۔

پاکستان میں ایک بار پِھر بیرونی اور اندرونی طاقتوں کی ایما پر (مگر عمومی تاثر میں عوام کے اِصرار پر) لائے گئے آمریت و جمہوریت کے منفعت اندوز افراد کی حکومت اور عوام کے درمیان پُرانے وعدوں کی وفا کے نئے عہد طے پائے ہیں۔ اس طویل عمل کے تسلسل میں برپا خونریزی اور سماجی تقسیم سے پُھوٹنے والی صبح کتنی تابناک ہو گی، اس کا اندازہ حکومتی کارندوں کے خُوش کُن خطابات سے لگانا مُمکن نھیں۔ علم ایک بااثر ہتھیار ہے۔ وسائل اور اختیارات پر وہی اقوام قابض ہیں جو شعور اور علوم پر اپنی برتری قائم رکھے ہوئے ہیں۔ دیگر اقوام جہالت کے تسلط سے نبردآزما ہیں۔ لیکن یہاں ایک سے دوسرے ہاتھ بکتے “پیارے عوام” تین وقت کے کھانے اور اپنے آقاؤں کی خوشنودی سے آگے سوچ ہی نہیں سکتے۔

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پِھر سُلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری