ڈاکٹرابراراعظمی کی یادمیں

یہ تحریر 3158 مرتبہ دیکھی گئی

  ۷اپریل۲۰۲۰ کی صبح یہ روح فرسا خبرلے کرطلوع ہوئی کہ اعظم گڑھ کاایک اورنیرتاباں غروب ہوگیا،یعنی اردوکے ممتازادیب وشاعر،نقاداورماہرتعلیم ڈاکٹرابراراعظمی نے ۲بجے شب میں وفات پائی۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔وہ محض شعروادب کی آبرونہ تھے بلکہ مشرقی تہذیب وشرافت کی ایک عمدہ مثال تھے۔واقعہ یہ ہے کہ ان کی وفات سے سادگی ،شرافت،نیکی،مروت ،وضع داری اور سنجیدگی ومتانت کاایک نقش مٹ گیا۔

ڈاکٹرابراراعظمی۵فروری۱۹۳۶ کواعظم گڑھ کے ایک گاﺅںخالص پورمیں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش وپرداخت اورتعلیم وتربیت ان کے ناناعبدالقیوم خاں [۱۸۹۸-۱۹۵۴] نے کی۔ابتدائی تعلیم کے بعدبانس گاﺅں سے ہائی اسکول پاس کیااور۱۹۴۹ میں میاں صاحب جارج اسلامیہ انٹر میڈیٹ کالج گورکھپورمیں داخل ہوئے۔ یہاں سے انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ مشہورنقاداوران کے دیرینہ یار شمس الرحمن فاروقی[پ:۳۰ستمبر۱۹۳۵] یہیں ان کے ہم جماعت تھے۔ یہیں دونوں میں دوستی ہوئی جوہمیشہ باقی رہی۔ابھی ہماری زبان دہلی کے ۲۲مارچ کے شمارے میں ابرار اعظمی کا جومضمون”قصہ ایک شخص کی وصولیابیوں کے پس منظرکا“ شائع ہواہے وہ اسی ربط و تعلق کی دیرینہ داستان کاایک حصہ ہے۔

گورکھپور کے بعدوہ اعلی تعلیم کے لئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ چلے گئے اوروہاں سے بی اے اور ایم اے کی اسنادلیں۔ بعدازاں تعلیمات  میں پی ۔ایچ ڈی کی۔تکمیل کے بعداعظم گڑھ واپس آگئے اور تدریس کامشغلہ اختیارکیا۔ کچھ دنوں تک شبلی اسکول بعدازاں شبلی نیشنل پی جی کالج اعظم گڑھ میں درس وتدریس سے وابستہ رہے۔یہاں ان کی ملازمت مستقل نہیں ہوئی، اس لئے مالٹاری پی ۔جی، کالج اعظم گڑھ میں جب مستقل ملازمت ملی تو وہاں چلے گئے۔جہاں ترقی کرکے صدر شعبہ تعلیمات و تربیت اساتذہ مقررہوئے۔ اور یہیں سے وظیفہ یاب ہوئے۔ پھربقیہ زندگی اپنے گاﺅں میں گوشہ نشینی اورعلم وادب کی خدمت میں گذاری۔

ابرار صاحب سے شبلی اسکول کالج اورمالٹاری پی ۔جی۔ کالج میں بہت سے طلبہ نے استفادہ کیا۔ چونکہ وہ طلبہ سے حددرجہ لگاﺅ رکھتے تھے۔اس لئے طلبہ بھی ان سے بہت مانوس رہے۔ان میں ہندو مسلمان کی تفریق نہ تھی ،یہی وجہ ہے کہ وہ ہرطبقہ میں یکساں مقبول اورہردلعزیزرہے۔ان کے بعض تلامذہ بڑے عہدوں پر فائز ہوئے جو ان کی خدمت میں حاضرہوتے اوران سے دعائیں لیتے تھے۔علاقہ میں بھی ان کابڑاادب و احترام تھا۔ ابتدا  میں وہ لوگوں سے میل ملاپ رکھتے تھے ،دوستوں اورساتھیوں سے خاص تعلق تھا۔ بلریاگنج کے حکیم محمد ایوب[۱۹۲۴-۲۰۰۴] اور دیگرممتازلوگوں سے گہرے روابط تھے ۔ان بزرگوں نے جب جامعةالفلاح کی تاسیس کا منصوبہ بنایاتوڈاکٹرصاحب بھی اس میں شریک رہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ جامعة الفلاح کے رکن تاسیسی قرارپائے۔چنانچہ اس کی تعمیروترقی میں انہوں نے بھی حصہ لیااورآخردم تک اس سے وابستہ رہے اور اپنے تجربہ اور علم سے اس کوفائدہ پہنچاتے رہے۔

  وہ جب تک اعظم گڑھ شہرمیںمقیم رہے یہاں کے اداروںاوران کے ذمہ داروں سے ان مراسم رہے۔جامعةالرشادمیں حضرةالاستاذمولانامجیب اللہ ندوی[۱۹۱۸-۲۰۰۶]سے انہیں خصوصی شغف تھا اوران کی خدمت میں برابرحاضرہوتے ۔ اپنی ایک تحریر میں حالی[۱۸۳۷-۱۹۱۴] شبلی[۱۸۵۷- ۱۹۱۴]،اقبال[۱۸۷۷-۱۹۳۸] اورمولاناابوالاعلی مودودی[۱۹۰۳-۱۹۷۹] کے ساتھ انھوں نے مولانا مجیب اللہ ندوی سے بھی متاثر ہونے کی صراحت کی ہے۔مولانامرحوم بھی ان سے بہت مانوس تھے۔ان کی وفات پرڈاکٹر ابرار صاحب نے جو مرثیہ کہا وہ اسی محبت کامظہرہے۔ ڈاکٹرصاحب سے میری واقفیت بھی یہیں حضرة الاستاذ کی مجلسوں میں ہوئی اور پھر ان کی وہ شفقتیں میرے حصہ میں آئیں جو بہت کم لوگوںکوملی ہوںگی۔

  ان کادارالمصنّفین،معارف اورمدیرمعارف مولاناضیاءالدین اصلاحی [۱۹۳۷-۲۰۰۸]مرحوم سے بھی بڑاگہرا تعلق تھا۔مولاناضیاءالدین اصلاحی صاحب کی وفات پر بھی ڈاکٹرصاحب نے ایک نظم لکھ کرانہیںخراج عقیدت پیش کیاہے،جوان کے مجموعہ” غبارشیشہ ساعت “میں شامل ہے۔ دار المصنفین شبلی اکیڈمی کے ماہنامہ معارف کے تووہ مستقل شاعر تھے۔اکثران کی غزلیں اورکبھی کبھی نعت اس کے صفحات کی زینت بنتی تھیں۔

اعظم گڑھ شعروادب کاگہوارہ رہاہے۔ڈاکٹرصاحب کے عہدشباب میں یہاں کی شعری مجلسوں میں مرزااحسان احمد[۱۸۹۶-۱۹۷۲]،رحمت الہی برق اعظمی[۱۹۱۱-۱۹۸۳]،منیف اعظمی، امجدعلی غزنوی[۱۹۱۶-۱۹۹۶]اورضیاءالرحمن اعظمی[۱۹۳۷-۲۰۱۰] وغیرہ کے ساتھ ڈاکٹرابراراعظمی صاحب بھی شریک ہوتے تھے اوراپناکلام سناتے ۔مجھے انھوں نے بتایاکہ انھوں نے صبح غزل اور شام افسانہ کے نام سے بھی پروگرام شروع کئے گئے تھے مگروہ زیادہ دن تک چل نہ سکے۔ڈاکٹر صاحب مشاعروں کے شاعرنہ تھے اورنہ ان میں شریک ہوتے۔ایک جگہ لکھاہے کہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میں جوکچھ کہتاہوں اس کابیشترمخاطب خودہی ہوتاہوں۔

                ڈاکٹرصاحب تعلیمات کے مردمیدان تھے ۔انھوں نے ایک غیرمسلم استاذ کی نگرانی میں پی ۔ایچ ڈی کی تھی اوران کی تعلیمی مہارت کے واقعات اکثرسنایاکرتے تھے۔اوراپنے استاد کا ذکر بے حد محبت اور احترام سے کرتے تھے ۔ گذشتہ صدی میں اساتذہ اورطلبہ کایہی رشتہ تھا۔ اب یہ سب ہمارے زمانہ میںمفقودہوتاجارہا ہے۔ڈاکٹرصاحب نے گذشتہ سال اپنے اساتذہ کا تذکرہ لکھناشروع کیاتھا جوپایہ تکمیل کوپہنچ گیاتھا ۔محض نظرثانی باقی رہ گئی تھی۔یہ سلسلہ میری اس فرمائش کا ایک نےتجہ تھا کہ اپنی خودنوشت سوانح قلم بند کر ڈالیں۔سب سے سے پہلے انھوں نے اپنے اساتذہ کے حالات لکھے، اس انداز میں کہ خودان کے ابتدائی تعلیمی سفرکے حالات وواقعات اس میں آگئے ۔خداکرے وہ شائع ہوجائے۔

                تعلیم وتربیت اورتعلیمات سے اس قدر لگاﺅ کے باوجود اردوزبان وادب ان کے دل ودماغ میں ایسا رچ بس گیا تھا کہ تادم واپسیں وہ اسی کی زلفوں کے اسیررہے۔تین شعری مجموعوں جوہرآئینہ ، پرستش وعقیدت اورغبارشیشہ ساعت کے علاوہ درج ذیل کتب ورسائل ان کے قلم سے شائع نکلے:

                مائیکرو ٹیچنگ (پی ایچ ڈی کامقالہ ،غیرمطبوعہ)آئیے قرآن پڑھیں،شاہراہ قرآن(ترجمہ) تلخیص شمائل ترمذی، نثرپارے،وہ ایک رات اوردوسرے افسانے،بازیافت۔گل بوٹے (غیرمطبوعہ) میراتعلیمی سفر(غیرمطبوعہ)وغیرہ۔

                انہیں فارسی زبان وادب پربھی بڑاعبورتھا۔ فارسی شعرا کاکلام توان کے نوک زبان رہتاتھا ۔ اکثرفارسی اشعارسناتے اورپھران کی تشریح بھی کرتے۔یہ تومجھے نہیں معلوم کہ اردووفارسی انھوں نے کہاں اورکس سے پڑھی تھی، مگردونوں زبانوں پر انھیں عالمانہ دسترس تھی۔ان کی شاعری ،مضمون نویسی، افسانہ نگاری اور تراجم کاآغاز میاں صاحب جارج اسلامیہ انٹرکالج گورکھپورکے زمانہ طالب علمی میں ہوا۔ آپ اس سے ان کی اٹھان کااندازہ کرسکتے ہیں۔وہ بچپن سے کم گو، لئے دئیے رہنے والے مگر بہت ذہین تھے۔ مطالعہ ان کا وسیع تھا اور حافظہ قوی۔

۱۹۸۲ میں ابرار صاحب کاپہلامجموعہ” جوہرآئینہ“ شمس الرحمن فاروقی کے دیباچہ کے ساتھ شائع ہوا۔ یہ ۱۹۶۶ سے ۱۹۸۲ تک کے کلام کاانتخاب ہے۔فاروقی صاحب نے اس وقت ان کی شاعری کے بارے میں جن خیالات کااظہارکیاتھا،اس میں دوباتیں خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔پہلی بات یہ کہ:

’ابراراعظمی کی شاعری جدید زندگی کے پیداکردہ تمام مسائل کی آئینہ دار ہے۔ وہ اظہار ذات کی منزلوں کے مسافرہیں۔ ان کی داخلی شخصیت مادی دنیا کے مظاہر سے قدم قدم پرمتصادم ہے ۔اس تصادم کے نتیجہ میں روحانی انتشار اس درجہ کارفرماہوتاہے کہ یہی انتشار شخصیت کے نقاب کاکام کرتا ہے۔ان کے کلام میں واحدمتکلم جس شدت سے جلوہ گرہے اورجس طرح کے کرب سے گذاراگیاہے کہ یہ عظیم الشان بکھراﺅ کسی ایسی گھٹن کی نقاب تونہیں جس میں لفظی اظہارہی نہیں بلکہ جذباتی اظہارکی راہیں بھی مسدودہیں۔

                دوسری بات یہ کہ:

ابراراعظمی شعرکی روایتی سلاست اورروانی کے بجائے ایسے طرز اظہار میں یقین رکھتے ہیں جس میں الفاظ ایسی کیفیت کے حامل ہوتے ہیں جسے بعض نقادوں نے Intension کانام دیا ہے،یعنی داخلی تناﺅ جس میں لفظی مفہوم سے زیادہ اس مفہوم کی قدرہوتی ہے جوالفاظ اوراس کی پیداکردہ آوازوں کی Pattern سے جنم لیتاہے۔

پیکرکااستعمال ابراراعظمی کے یہاں مختلف طرح حیات کوآپس میں گڈمڈ کردینے سے عبارت ہے۔یہ وہ طریقہ کارہے جومشرق ومغرب کے جرات مند شعرا اپناتے رہے ہیں۔چنانچہ خوشبوسونگھنے کے بجائے سننا،رنگ دیکھنے کے بجائے محسوس کرنا،جہات کے ادغام کی ایسی کوششیں تخیل پرست شعراء کے یہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ایک خوب صورت مثال بابافغانی کایہ شعرہے جس میں بوئے گل کے لئے شنیدن کامصدرآرہاہے:

مقصود صحبت است زگل ورنہ بوئے گل

انصاف گر بود ، زصبا می تواں شنید

                اپنے موقف کی تائید میں فاروقی صاحب نے ان کے چنداشعاربھی درج کئے ہیں۔ اس کے دوشعریہ ہیں:

خیال لمس کا کار ثواب جیسا تھا

اثر صدا کا بھی موج شراب جیسا تھا

ورق نچے ہوئے سب لفظ ومعنی گم سم تھے

یہ بات سچ ہے وہ چہرہ کتاب جیسا تھا

                سنہ ۲۰۰۲ میں ڈاکٹرصاحب کادوسرامجموعہ حمد ونعت” پرستش وعقیدت “مولاناضیاءالدین اصلاحی [۱۹۳۷-۲۰۰۸]کی تقریظ کے ساتھ شائع ہوااورخاصا مقبول ہوا۔اس میں شاعری کااندازتووہی ہے مگر فکرمیں تبدیلی آئی ہے اوران کی مذہبی روح نکھرکرسامنے آگئی ہے ۔پرستش وعقیدت بلاشبہ بڑی خوب صورت حمدونعت کا مجموعہ ہے۔اس کے بارے میں مولاناضیاءالدین اصلاحی نے لکھاہے :

 صنائع وبدائع کے استعمال سے ابراراصاحب کی شاعری کالطف دوبالا اورطریقہ ادااوراظہار کی دلکشی ودلآویزی بڑھ گئی ہے۔ابرارصاحب نے حمد ونعت گوئی کے قدیم طرزکوترک کرکے اپنی ایک الگ روش بنائی ہے اور جس طرح ان کے انداز بیان میں جدت ہے اسی طرح ان کے تخیل میں انوکھااورنرالاپن ہے۔

                مگرفاروقی صاحب کے یہ تاثرات ہیں:

کلام میں شاعری کاعنصر عقیدے کے بوجھ تلے دب گیاہے،یہ اوربات ہے لےکن اس کے خلوص اور شدت میں کوئی کلام نہیں۔

یہی حقیقت بھی ہے ،مگرایک دیرینہ دوست کے لئے یہ لکھناآسان نہ تھا۔یہ جہاںفاروقی صاحب کی حقیقت نگاری کاایک نمونہ ہے ،وہیں ان کے دوست کی فراخ دلی کامظہربھی کہ اسے جوں کاتوں کتاب میں شامل کرلیا۔

سنہ ۲۰۱۰ میں ڈاکٹرصاحب کاتیسرامجموعہ ”غبارشیشہ ساعت“ منظرعام پرآیا۔یہ انتخاب کلام ہے، لیکن اس میں جوہرآئینہ کی غزلوں کے انتخاب کے علاوہ تمام نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔اس لحاظ سے ان کے بہترین کلام کامجموعہ یہی ”غبار شیشہ ساعت “ ہے۔اور اس میں ان کی شاعرانہ عظمت اورفکری وفنی کمالات کے جلوے روشن ہیں۔ خودانہوں نے صراحت کی ہے کہ اس میں ان کی شاعری کے تینوں مدارج آگئے ہیں۔

سنہ۲۰۱۰ کے بعداخیرزندگی تک انہوں نے جواشعارکہے یانثرمیں جوکچھ لکھااسے وہ یکجا کرچکے تھے۔پہلے اس کانام ”گل بوٹے“ رکھاتھا، بعد میں بدل کر”نظم ونثر“کردیا۔اس کی کمپوزنگ بھی مکمل ہوگئی تھی ۔ مولانا طاہرمدنی صاحب کے ذریعہ اسے شائع ہوناتھا،مگروہ اس وقت پس دیوارزنداں ہیں، اس لئے وہ شائع ہونے سے رہ گیا۔ خداکرے انھیں جلدرہائی نصیب ہو۔

ابراراعظمی مرحوم جدیدلب ولہجہ کے نمائندہ شاعرتھے۔بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ اپنی مثال آپ تھے۔ تحقیق وتنقید اور شعر و ادب میں ان کے آدرش فاروقی صاحب تھے اوروہ ان کے نزدیک جدید ادب کاسب سے بڑا نمونہ تھے۔ان کی علمی وادبی ہرگفتگوفاروقی صاحب سے شروع ہوکر انھیں پرختم ہوتی تھی۔ وہ ”شب خون“ کے ابتدائی اوربنیادی اہل قلم میں سے تھے اوراس میں چھپنامعراج کمال تصورکرتے تھے۔ اس کے علاوہ معارف،آجکل،ایوان اردو،ہماری زبان اور بعض دوسرے رسائل میں بھی ان کاکلام اورمضامین چھپتے تھے۔لیکن ان کامحبوب اورپسندیدہ رسالہ” شب خون“ ہی تھا۔اس کے بند ہونے پر اوروں کے ساتھ انھیں بھی بہت قلق ہواتھا۔

   انھوں نے فاروقی صاحب پرکئی مضامین لکھے ہیں۔نثرپارے اورارمغان فاروقی میں ان کے اچھے مضامین شامل ہیں۔ایک مضمون کاعنوان ہے”بہترنشترمیرکے نہیں فاروقی کے“۔اس، اور بعض دوسرے مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فاروقی صاحب کے سچے دوست ہی نہ تھے بلکہ ان کے ایک بڑے قاری اوربڑے فاروقی شناس تھے۔ایسی ٹوٹ کرمحبت کرنے والے کم ہی لوگوں کے نصیب میں آتے ہیں۔ فاروقی صاحب کے حوالہ سے ان کی ایک کاوش ہمیشہ یادرکھی جائے گی اور وہ ہے ”بازیافت“ اوراس کادیباچہ۔”بازیافت“ فاروقی صاحب کی طالب علمی کے ایک ناولٹ ،ایک افسانہ اور ایک غزل پرمشتمل ہے۔یہ نوادرانھوں نے دورطالب علمی سے محفوظ رکھے تھے اورانھیں بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔فاروقی صاحب اورجمیلہ فاروقی کے لئے انھوں نے جواشعارکہے ہیں وہ بھی لائق ذکر ہیں۔فاروقی صاحب پران کے اشعارملاحظہ ہوں:

وہ ایک شخص جو مجھ سے خفابھی رہتا ہے

اسے جفامیں خیال وفا بھی رہتاہے

متاع ذہن پہ شب خون مارتاہے کبھی

کہ نقد جاں لئے حاضر سدا بھی رہتا ہے

بہت ہے بعد مکانی پر اس کو کیا کیجے

وہ میرے گوشہ دل میں چھپا بھی رہتا ہے

اسے بھلانا بھی چاہوں بھلا نہیں سکتا

کہ میرے ذکر پہ وہ کچھ فدا بھی رہتا ہے

                دیگراشخاص کے حوالہ سے بھی ان کی کئی تحریںان کے مجموعہ مضامین ”نثرپارے“میں شامل ہیں۔علامہ اقبال پرانھوںنے جومقالہ ”اقبال کاکلام منسوخ“کے عنوان سے لکھا ہے وہ ان کی محققانہ بصیرت کاایک نمونہ ہے۔ غالب[۱۷۹۷-۱۸۶۹]،حالی ا ورشبلی کے توبڑے پرستار تھے۔ان کے شعری مجموعوں کاآغاز غالب کے اشعارسے ہواہے اور پہلے مجموعہ کلام ”جوہرآئینہ “کانام بھی غالب کے ایک شعرسے ماخوذہے۔ جبکہ” غبار شیشہ ساعت“ بیدل[۱۶۴۴ تا ۱۷۲۰]کے شعر سے ماخوذہے۔

اپنے احباب میں انھوں نے پروفیسر کبیراحمدجائسی [۱۹۳۷-۲۰۱۳] کاذکربھی بڑے والہانہ اندازمیں کیاہے۔ ڈاکٹرافغان اللہ خاںاوربعض دوسروں کے تذکرے بھی قابل ذکرہیں۔اس طرح کے ان کے تمام مضامین و مقالات،خطوط وخطبات اور دیباچوں کا مجموعہ ” نثرپارے“ ۲۰۱۵ میںشائع ہوا۔

”نثرپارے“ نہ صرف مضامین میں تنوع کے لحاظ سے قابل ذکرہے بلکہ خوب صورت نثرکابھی ایک شہ پارہ ہے۔وہ کم لکھتے تھے مگرجب لکھتے تھے بڑی خوب صورت اوردلکش نثرلکھتے تھے۔

ڈاکٹر ابرار صاحب کوقرآن پاک سے بڑالگاﺅ تھا۔ان کاخیال تھاکہ اس کامطالعہ عام ہوناچاہئے۔ چنانچہ انھوں نے اس کی طرف لوگوں کوراغب کرنے کے لئے ایک رسالہ”آئیے قرآن پڑھیں“ لکھاجو کئی بارشائع ہوا۔ اس میں قرآن پاک کی عظمت بیان کرنے کے ساتھ تفہیم قرآن کی اہمیت کی بھی وضاحت کی بڑے سہل اوردل نشیں انداز میں کی ہے۔اس سے محسوس ہوتاہے کہ انھوں نے مذہبیات کا مطالعہ بھی بڑی گہرائی سے کیاتھا۔

  مولاناکرامت علی جون پوری [ف:۳۰مئی۱۸۷۳]کے شمائل ترمذی کے اردوترجمہ کو مولانا مجیب اللہ ندوی[۱۹۱۸-۲۰۰۶] نے شائع کیا تو اس کی افادیت کے پیش نظر ڈاکٹرابراراعظمی نے اس کی تلخیص ”تلخیص شمائل ترمذی“کے نام سے ۲۰۰۱ میں شائع کی۔جسے علماءکے حلقے میں سراہاگیا۔اس میں سیرت نبوی بالخصوص شمائل نبوی کو اس خوبی سے بیان کیاگیاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلنواز شخصیت کاایک خوب صورت مرقع سامنے آجاتا ہے۔اس کاتعارف ڈاکٹر سید عبدالباری شبنم سبحانی[۱۹۳۷-۲۰۱۳] کے قلم سے ہے۔

                چندسال پہلے ان کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہواکہ نئی نسل بالخصوص نوجوانوںمیں انقلاب سیرت نبوی ہی سے پیداکیاجاسکتاہے۔اس کے لئے انھوں نے ایک بڑاوسیع منصوبہ بنایااوراس کاخاکہ تیار کرکے اہل علم اوراخبارورسائل کوبھیجا۔خیال یہ تھاکہ تمام مدارس ومکاتب کے طلبہ سے سیرت نبوی کے مختلف موضوعات پر ہرسال مقالہ لکھواجائے اورجو مقالات منتخب ہوں انھیں انعامات سے نوازاجائے۔ اس کے لئے انھوں نے اپنی جیب سے ایک بڑی رقم مختص کی ۔چنانچہ یہ مقابلے ایک دوبار منعقدہوئے۔ اور بچوں کو انعامات دئے گئے۔انعامات کی تقسیم کے لئے جامعةالفلاح میں تقریبات منعقد ہوئیں۔جس میں متعدد اہل علم اورعلما نے شرکت کی۔مولاناطاہرمدنی صاحب نے اسے کامیاب بنانے میں اہم رول اداکیاتھا۔ امیدہے آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔اوریہی مرحوم کوسچاخراج عقیدت ہوگا۔

  گذشتہ سطور میں ان کی تعلیمی خدمات کاسرسری ذکرآچکاہے،اس سلسلہ کاان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے جامعة الفلاح کومرکز بناکرمدارس کے اساتذہ کی جدیدتعلیمی اصولوں کی روشنی میں تدریسی تربیت کے لئے ایک وسیع منصوبہ بنایا۔اس کے لئے ایک تعلیمی نصاب بناکرامتحانات اوراسناد کا ایک مکمل نظام ترتیب دیا۔مگربوجوہ یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔لیکن جب کبھی مدارس میں تربیت اساتذہ کی اہمیت محسوس کی جائے گی اس وقت اس منصوبہ کی افادیت بھی محسوس کی جائے گی۔

   ڈاکٹرابراراعظمی کی تعلیمی خدمات کااعتراف علی العموم کیاگیا۔ڈاکٹرابراراعظمی ایکسی لینس گولڈ میڈل مرزا احسن اللہ بیگ گرلز پی۔ جی۔ کالج انجان شہیدمیں ہرسال ایک ممتاز طالب علم کودیاجاتاہے۔اسی طرح دیانند شیشومندر جین پوربھی ایک طالب علم کو ”ڈاکٹرابراراعظمی اتکرشٹ پرسکار“ کااہتمام کرتاہے۔

ڈاکٹرابراراعظمی کی شاعری، نثرنگاری،درس وتدریس،تعلیم وتربیت اورپھرقرآن وسیرت سے ان کی دلچسپی اورتگ ودو ان کی زندگی کے متنوع کارنامے ہیں۔جس میں وہ نہ صرف ایک بلندرتبہ ادیب و شاعر اور معلم نظرآتے ہیں بلکہ وہ سراپامردمومن کی صورت بھی دکھائی دیتے ہیں۔ان کی زندگی نشیب وفراز کے متنوع واقعات کامجموعہ ہے مگروہ کسی مرحلہ میں مایوسی اوراضمحلال کاشکار نہیں ہوئے بلکہ مرد مومن ہی کی طرح ہوش مندی اورسلامت روی کے ساتھ گذر گئے ۔داخلی زندگی کے مسائل اور مشکلات کو خارجی زندگی پراثرانداز نہیں ہونے دیا۔ سچ تویہ ہے کہ ڈاکٹرصاحب زندگی اورحوصلہ مندی کا ایک استعارہ تھے ع خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را