پہاڑ کی آواز

یہ تحریر 2605 مرتبہ دیکھی گئی

نوبیل انعام یافتہ جاپانی ادیب یاسوناری کاواباتا کا ناول

ناول کا مرکزی موضوع رشتوں اور خوابوں کا ادھورا پن ہے

جاپان کا ذکر آئے تو ایک جدید صنعتی معاشرے کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بلند و بالا عمارتوں میں گھرا تیز رفتار معاشرہ جس کا ہر فرد زندگی کے مقابلے میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی تگ و دو کر رہا ہے اور اس دوران سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ایسے معجزے کر رہا ہے کہ تمام دنیا انگشت بدنداں ہے۔ لیکن کم ہی لوگ اس حقیقت سے باخبر ہوں گے کہ یہ ایجاد و اختراع کا دلدادہ معاشرہ صدیوں تک اپنی تہذیبی سرحدوں میں قید رہا ہے اور اس نے سینکڑوں برسوں تک نئے خیالات اور نئے عقائد کی مزاحمت کی ہے۔ آج بھی اس کی تمام تر جدیدیت قدیم روایات میں پیوست ہے۔ شاید جاپان کی اصل زندگی جدید صنعتی شعروں کی بجائے اس کے دیہات میں ہے۔

یاسوناری کا واباتا نے ”پہاڑ کی آواز“ میں جاپان کی اسی دیہی زندگی کو اُجاگر کیا ہے جہاں زندگی آہستہ رو ہے، رسم و رواج، روایات اور اقدارکی زنجیروں میں بندھی ہے مشینوں کی بجائے پھولوں، جانوروں اور پرندوں اور درختوں کے سائے میں آگے بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کے پاس اتنا بہت سا وقت موجود ہے کہ وہ ایک دوسرے کے متعلق سوچ سکتے ہیں۔ دوسروں کے دکھوں کو محسوس کر سکتے ہیں۔ پھولوں اور پتوں کے بدلتے ہوئے رنگوں کو بھانپ سکتے ہیں اور گاؤں کے جانوروں اور پرندوں کی آوازوں سے انکی تکلیفوں اور مسرتوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

یاسوناری کا واباتا کون ہے؟ اس نے کیا کچھ لکھا ہے؟ جاپان کا یہ نوبل انعام یافتہ ادیب 1899 میں اوساکا میں پیدا ہوا لہٰذا بچپن ہی میں ماں باپ کا انتقال ہو گیا۔ بچپن اور لڑکپن کا عرصہ تنہائی میں گزارا۔ نوبیل انعام سے پہلے اسے جاپان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ مل چکا تھا۔ 1972 میں خودکشی کر لی۔ اس کے اہم ناول ”برف دیس“، ”پہاڑ کی آواز“ اور ”ہزار کونجیں“ ہیں۔ ان ناولوں کے علاوہ اس نے بہت سے ادھورے مسودے چھوڑے ہیں۔

شائد یہ ادھورا پن اس کے ادب کی بنیادی کیفیت ہے۔ ”پہاڑ کی آواز“ کا مرکزی موضوع بھی یہی ادھورا پن ہے۔ رشتوں اور خوابوں کا ادھورا پن۔ ہر کردار اپنے خوابوں کے ٹوٹنے کی اذیت سہہ رہا ہے اور موجود رشتوں کے ادھورے پن کے باوجود انہیں نبھائے رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اپنے اندر بند ہوتا جا رہا ہے۔ ایک احساسِ زیاں ہے جو نا محسوس طریقے سے سارے رشتوں اور بندھنوں میں رچا ہوا ہے۔ لیکن زندگی بہہ رہی ہے اور اس پر کسی کی گرفت نہیں۔ اس بہاؤ میں بہتا ہوا ہر کردار ایک بے چارگی کے ساتھ خود کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔

ایک ساٹھ سالہ بوڑھا شنگو اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ جس نے اپنی جوانی میں ایک حسین عورت سے محبت کی اور ناکامی پر اس کی بدصورت بہن سے شادی کر لی۔ شائد وہ اس کی بہن میں اس کا کوئی پر تو تلاش کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ یہ رشتہ ادھورا ہی رہا۔ جسمانی اور سماجی بندھن کے باوجود جذباتی اور روحانی سطح پر ان میں کبھی کوئی جڑت قائم نہیں ہو سکی۔ ایک بے رس، بے روح اور بے کیف رشتہ۔ شنگو لاشعوری طور پر اپنی بیٹی میں بھی اپنی خوبصورت سالی کو تلاش کرنا چاہتا تھا، لیکن فوساکو بھی اس کی جھلک نہیں دکھا سکی۔ یہ مایوسی اور شکست خوردگی کی کیفیت شنگو کی ذات میں رچ بس گئی اور ایک وقت آیا کہ شنگو کو عورتوں سے نفرت ہو گئی۔

اس دوران اس کے بیٹے شوئی چی کی شادی ہوتی ہے اور گھر میں آنے والی خوبصورت بہو کیکو کو اسے سرشار کر دیتی ہے۔ اچانک اس کے اندر وہی لطیف جذبات سر ابھارنے لگتے ہیں جنہیں وہ ایک زمانہ پہلے بھول چکا تھا۔ کیکوکو کا خاوند یعنی شنگو کا بیٹا اس قدر خوبصورت اور وفادار بیوی کے ہوتے ہوئے بھی ایک فاحشہ عورت کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف اس کی بیٹی فوساکو اپنی بچیوں سمیت میکے آ بیٹھتی ہے اور اس کا نشے باز خاوند اسے طلاق دے دیتا ہے۔ سبھی کو احساس ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ یہ چھوٹا سا کنبہ کھوکھلا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ محبت اور ہم آہنگی کی ڈور ٹوٹ رہی ہے لیکن سبھی خاموش ہیں اور بھرم قائم رکھے ہوئے ہیں۔ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ہر شخص ادھورا ہے اور رشتوں کے ادھورے پن کا کوسہ رہا ہے۔

شنگو دیہی معاشرے کا ایک روایتی سا مرد ہے۔ اور تمام روایتی انسانوں کی طرح اپنی اخلاقی قدروں کا قیدی ہے۔ کیکو کو کے حوالے سے اس کے اندر ایک احساس جرم موجود ہے جس کو دبائے رکھنے کے لیے وہ طرح طرح کے حیلے بہانے کر رہا ہے۔ اپنے بیٹے شوئی چی سے اسے ایک ہلکی سی جلن بھی ہے کہ رہ روایتوں، قدروں اور سماجی اخلاقیات کی زنجیروں کو توڑ کر وہ سب کچھ کر رہا ہے جو وہ اپنی نوجوانی میں نہیں کر سکا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس باغی بیٹے کا معاشقہ کیکو کو کو مظلوم بھی بناتا ہے اور اس نفیس ”گڑیا“ کی یہ مظلومیت شنگو کے ”غیر اخلاقی“ احساسِ محبت کو جواز فراہم کرتی ہے۔

”کالی بارش“ اور ”چوبیس آنکھیں“ کی طرح اس ناول میں بھی دوسری جنگِ عظیم کے بارود کی بو رچی ہوئی ہے۔ کرداروں کی سماجی زندگی کی ٹوٹ پھوٹ اور پورے ناول پر چھائی ہوئی شکستگی کی فضا کا سبب شاید یہی ہے۔ شوئی چی جنگ لڑ کے واپس آیا ہے اور اس کے اندر اس قدر زہر بھر چکا ہے کہ وہ سب کچھ توڑ پھوڑ دینا چاہتا ہے، بے تحاشا شراب پیتا ہے اور غل غپاڑہ کرتا ہے۔ اس کی رکھیل کا خاوند جنگ میں مارا جا چکا ہے۔ وہ ایک طرح کا انتقام لے رہی ہے۔ اپنے آپ سے بھی اور دوسروں سے بھی۔ شنگو کو جنگ کے بعد عورتوں سے نفرت ہو گئی۔

اس تمام صورت حال نے مل جل کر ایک سوگوار سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ آخر کار جو کچھ باقی بچتا ہے وہ جھنجھلاہٹ اور بے بسی ہے۔ جھنجھلاہٹ جو شوئی جی، فاساکو اور مئی آئیدا کے رویوں سے پھوٹتی ہے اور بے بسی جو شنگو یا موکو اور کیکو کو پر چھائی ہوئی ہے۔ اس بے چارگی سے کچھ سوال جنم لیتے ہیں۔ کیا اواہو کی کامیابی یا ناکامیابی بوڑھے والدین کی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا پیمان ہے؟ کیا تعفن زدہ ادھورے رشتوں کا بھرم قائم رکھنا ضروری ہے؟ کیا لمحہ بہ لمحہ اپنے اندر پنجے گاڑتے ہوئے احساسِ جرم سے بھاگتے رہنا ہی انسان کا مقدر ہے؟ کیا اس تمام ٹوٹ پھوٹ اور غارت گری میں اس کا کوئی قصور ہے۔ ”کسی نے کہا کہ جب ہم منصف کے حضور پیش ہوں تو ہمیں اسے بتانا چاہیے کہ فالتو پرزوں سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہو سکتا۔ ہم یہی کچھ تو ہیں۔ زندگی کے فالتو پرزے اور جتنی دیر ہم زندہ رہیں کیا زمانے کو ہمارے ساتھ کم از کم رحم کا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے۔“

اس ناول کا ترجمہ محمد سلیم الرحمن نے کیا ہے۔ انہوں نے جو زبان استعمال کی ہے اس کے دھیمے پن، گھلاوٹ اور جگہ جگہ آنے والے غیر مانوس الفاظ کے رچاؤ نے ناول کے دھیمے اسلوب کو مزید خوبصورت کر دیا ہے۔ ناول کے کرداروں کے نام ہمارے لیے اجنبی ہیں لیکن ان کی اذیتیں ہم جیسی ہی ہیں۔ ان کے نام یہ احساس دلاتے رہتے ہیںکہ یہ جاپانی ناول ہے۔ وگرنہ اگر انہیں تبدیل کر کے مقامی نام ڈال دیے جائیں تو یہ کسی بہت خوبصورت او ر صاحب اسلوب ناول نگار کا لکھا اردو ناول نظر آئے گا۔ اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آئے گا کہ یہ ترجمہ ہے۔

٭٭٭