ٹھنڈا جسم

یہ تحریر 593 مرتبہ دیکھی گئی

ابھی میرا جسم ٹھنڈا نہیں ہوا تھا ۔
جسم ٹھنڈا ہونے سے پہلے مجھ پر قیامتیں گز گئی تھیں۔۔۔
برسوں پہلے
اختر علی نے میری کوکھ ہری کی تھی۔۔۔

ابھی جسم ٹھنڈا نہیں ہوا تھا ، اور میری چیخیں میرے گلے میں اٹک چکی تھیں ۔
میں گولیوں کی بوچھاڑ سہ چکی تھی ،
گولیاں میرے کلیجے سے ضرور گزری تھیں ، لیکن میرا کلیجہ ابھی پھٹا نہیں تھا ۔
میرا کلیجہ چھلنی اس وقت ہوا جب میرا تین سالہ بیٹا ، سوات کے بھرے بازار میں خون میں لت پت مجھ سے لپٹ کر چیخ رہا تھا ۔
میں اپنے لئے کہاں جینا چاہ رہی تھی ۔
میں تو اپنی لاش سے لپٹی اس ننھی جان کے آنسو نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔
آج صبح کتنی ضد کر رہا تھا ،
بجلی کے بل کی عدم ادائیگی پر جب سرکاری اہلکاروں نے بجلی کاٹ دی اور اکلوتا پنکھا بھی بند ہو چکا تھا ۔ پہلی رات تھی پنکھے کے بغیر ، تو میں اسے رات بھر پنکھا جھلتی رہی تھی ۔
صبح جاگا تو میرے گلے لگ کے میرے بالوں سے کھیلتا رہا ۔
میرا ماتھا ، میرا منہ چومتا رہا اور میں اسکے ننھے ہاتھ اور روشن آنکھیں چومتی رہی تھی ۔
ایسا ہم ہر روز کرتے تھے ۔
جب سے اس کے باپ نے ہم دونوں کو اپنے گھر سے نکالا تھا ، ہماری دوستی زیادہ گہری ہو گئی تھی ۔
آج اپنی خالہ سے سات سو روپے ادھار لیکر بازار سے اسکے سکول کی چیزیں لینے جا رہے تھے ۔
اسکا بستہ اور جوتے پڑوسن نے دے دیئے تھے ۔
اسے سٹیشنری اور رنگ خریدنے کا بہت شوق تھا ۔ اور ہم کتابوں والی دکان سے کچھ ہی تو دور تھے ۔ تو وہ اپنی ماں کے بدن سے نکلے لال رنگ کو اپنی ننھی ہتھیلیوں پر جمتا دیکھ رہا تھا ۔
ابھی میرے بیٹے کی فلک شگاف چیخںوں نے بازار پہ سکتہ طاری کر دیا تھا ۔
میں اپنے ٹھنڈے ہوتے جسم سے باہر نکل کے اپنی لاش کے پاس بیٹھ چکی تھی ۔
لوگ کیوں اکٹھے ہو رہے تھے ، میں نے سوچا ۔
یہ مجھے پرسہ دینے آئے ہونگے ؟ اپنے فضول خیال پر میں شرمندہ ہو گئی ۔
یہ میرے منے کی چیخیں ریکارڈ کر رہے تھے ۔
یہ گولیوں کی آواز پہ کیوں نہیں رکے تھے ،میں حیران اپنی برقعے میں ملبوس لاش کو تکتی جا رہی تھی۔
میں اپنے بیٹے کو آخری بار زور سے گلے لگا کر ملنا چاہ رہی تھی ، میں اس سے آخری باتیں کرنا چاہ رہی تھی ،میں تو فقط اسے جینا سکھانا چاہ رہی تھی ، میں نے اسکی بہت سے باتیں سننی تھی، میں نے اسکے بہت سے لاڈ اٹھانے تھے ، میں نے اسے سکول میں فرسٹ پوزیشن لیتے دیکھنا تھا ، میں نے اسکی دلہن سجانی تھی ، لیکن میرا جسم ٹھنڈا ہوتا جا رہا تھا ، وقت میرے ہاتھوں کی انگلیوں سے ریت کی مانند پھسلتا جا رہا تھا ۔
یہ کیا ہوا ۔۔۔۔اچانک روتا ہوا خاموش ہوگیا ہے ، آنسو لیکن اسکی آنکھوں سے نکل کے اسکی گالوں پر ایک سیاہی مائل لکیر بنا چکے ہیں ۔
مجھے ہنسی آ گئی ،
یہ جو آنسوؤں نے اسکے چہرے پر سیاہی مائل لکیر کھود ڈالی ہے ، یہ وہ سرمہ ہے جو اسکی آنکھوں میں لگا کر میں ابھی چند منٹ پہلے باہر نکلی تھی ۔
یہ اچانک خاموش کیوں ہو گیا ہے ،
میں نے حیرانی سے اسے دیکھا تو پاگل کا بچہ میری لاش پر بیٹھے والی پہلی مکھی سے لڑائی کر رہا تھا ، مجھے ہنسی آ گئی ۔ پیار بھری ہنسی ۔
مکھی سے لیکن یاد آیا اسے تو کاکروچوں سے بہت ڈر لگتا ہے ، اسنے تو ابھی اکیلے واش روم جانا نہیں سیکھا ، یہ تو کپڑے بھی خود نہیں پہن سکتا ۔
اسے کھانا کون کھلائے گا اب ۔
میں جب اسے کھانا کھلاتی ہوں تو روزانہ پہلے ٹی وی چلاتی ہوں ، پھر اسکا ہاتھ منہ دھلوا کے اسے اپنے زانو پہ بٹھاتی ہوں ، وہ کبھی میرے بالوں سے کھیلتا ، کبھی میرے ہاتھوں سے کھیلتا ٹی وی دیکھتا رہتا ہے، میں اسے چھوٹے چھوٹے نوالے دیتی رہتی ہوں۔۔ ۔ وہ بہت آہستہ کھاتا ہے ، لیکن مجھے پتہ ہے کہ کب اسے دوسرا نوالہ دینا ہے ، مجھے نوالوں کے درمیان وقفہ اور ترتیب یاد ہے ۔ تو اسے اب میری ترتیب سے نوالے کون کھلائے گا ؟ میں اس وہم میں پریشان ہو رہی تھی ۔
ابھی چند لمحے پہلے جب ہم کتابوں کی دکان سے تھوڑی ہی دور تھے ، تو اسنے پیچھے سے آتے باپ کو پہچان کر مجھے ٹہوکا دیا تھا ۔ اور مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ آج بابا مجھے کتابیں دلوانے آ رہے ہونگے۔
اسکے بابا نے جب مجھے گولیوں سے چھلنی کیا تو وہ گولیوں سے ڈر کر نہیں چیخا تھا ۔
وہ تو مجھے جگانے کے لیے چیخ رہا تھا ۔
ابھی میرا جسم ٹھنڈا نہیں ہوا تھا ، اور میں اپنے ٹھنڈے ہوتے جسم سے بہ کر جمتے ہوئے خون پر بیٹھنے والی پہلی مکھی سے لڑائی کرتے اپنے بیٹے کو پیار سے دیکھ رہی تھی ۔

شفیق خان بلوچ ایڈووکیٹ کی دیگر تحریریں