خدا خواجہ سرا ہے

یہ تحریر 397 مرتبہ دیکھی گئی

 
میں ایک پولیس آفیسر ہوں ۔ آج کے کیس کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ ملاحظہ فرمائیں ۔
میرے پاس روزانہ طرح طرح کے کیسز آتے ہیں ۔ روزانہ سینکڑوں افراد سے ملاقات کرتا ہوں ۔ ہر کیس اپنی نوعیت میں مختلف ہوتا ہے ۔
آج میرے پاس ایک ملزم یا آپ اسے ملزمہ کہ لیں، لائی گئی ہے ۔ یہ خواجہ سرا ہے ۔ اس کی عمر کوئی پچاس کے لگ بھگ ہوگی ۔ میلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، جن سے پسینے کی بدبو واضح طور پر آ رہی ہے ، اسکی آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی ہیں اور اسکے چہرے پر کیا گیا میک اپ پسینے سے پگھلتا ہوا اسکی گردن پہ سوکھتا جا رہا ہے ۔ یہ کراہ کر بول رہی ہے ۔
میں سب سے پہلے اسکا بیان لکھتا ہوں ۔
پھر کارروائی آگے بڑھاؤں گا ۔ ساتھ رہیئے گا ۔
 
” جی میرا نام ببلی ہے ، ہم اپنے گرو کے ساتھ ایک کرائے کے مکان میں رہتے ہیں ، ہم لوگ مانگ تانگ کر گزارا کرتے ہیں ۔ ہم اپنی کمائی اپنی گرو کو جمع کرواتی ہیں ، جو ہم سب کا خرچہ اٹھاتی ہے ۔
ہم میں سے جو نوعمر ہیں انکی کمائی اچھی ہو جاتی ہے ، ( ببلی نے ادھر ادھر دیکھ کر زرا آہستہ آواز میں کہا)
(میں چونکہ تھانیدار ہوں تو میں خود نہیں لکھ رہا ، میرے ساتھ محرر بیٹھا ہے، جو تیزی سے ببلی کے بولے الفاظ تحریر کرتا جا رہا ہے ، میں نے اسے یہ والی لائن لکھنے سے منع کر دیا ہے )
 
” ڈوگر صاحب آپ کو بھی معلوم ہوگااس مہینے مہنگائی کتنی زیادہ بڑھ گئی ہے ، ہم نے ایک مہینے سے کمرے کا کرایہ بھی نہیں جمع کروایا ، ساری جمع پونجی بجلی کے بل کی مد میں لگ گئی ، حالانکہ ہمارے کمرے میں صرف ایک پنکھا اور صرف ایک بلب ہے ۔”
میں نے  اسکی لمبی تقریر سے تنگ آکر اسے جھاڑ پلائی اور غصے سے کہا کہ صرف وقوعہ بیان کرو ۔
اب یہ کچھ زیادہ خوفزدہ ہو گئی ہے ، اور اسکی آواز میں کپکپاہٹ واضح ہے ، لیکن میرے لئے یہ روٹین کی بات ہے ۔
” آج میں غلطی سے محلے کی جامع مسجد کے باہر بھیک مانگنے چلی گئی ، حالانکہ ہمیں بھی مساجد کا اتنا ہی احترام اور مساجد سے اتنا ہی پیار ہے جتنا کسی بھی اور مسلمان کو ہو سکتا ہے ۔ خیر میں نے جمہ ختم ہونے کا انتظار کیا اور مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی اور مولانا صاحب کی تقریر سنتی رہی ۔
مولانا صاحب کی تقریر ختم ہوئی تو دعا کے بعد لوگ باہر آنے لگے اور میں نے ان سے اللہ کے نام پر مانگنا شروع کر دیا ۔ ایک دو بچوں نے دس دس روپے دیئے ، لیکن جیسے ہی اپنے حاجی جمیل صاحب باہر نکلے اور انکی نظر مجھ پہ پڑی تو وہ غصے سے بپھر گئے اور کہا کہ تم کیوں مسلمانوں کا ایمان خراب کرنے یہاں مسجد کے باہر آگئ ہو ۔
انکی آوازیں سن کر دیگر نمازی بھی جمع ہو گئے اور سب نے مجھے برا بھلا کہنا شروع کر دیا ۔
پہلے تو میں گھبرائی لیکن پتہ نہیں کیسے مجھ میں ہمت پیدا ہوئی اور میں نے انہیں جواب دینا شروع کر دیا ۔ میں بولی “حاجی صاحب کیا میں انسان نہیں ہوں ، کیا میرے ساتھ پیٹ نہیں لگا ؟ میں تو ہر مہینے گیارہویں کا ختم کرواتی ہوں، ہر سال پورے روزے رکھتی ہوں ، میں بھی آپ سے کم مسلمان نہیں ہوں ” میں بولتی چلی گئی ، مجمع خاموش ہوچکا تو مجھے مزید ہمت ہوئی اور بولی …
“آج ہی خطبے میں مولانا صاحب فرما رہے تھے کہ  اللہ نے آدم کو اپنی صورت پہ پیدا کیا ہے، تو مجھ میں اور آپ لوگوں میں کیا فرق ہے ؟”
بس یہ کہنا تھا کہ سب سے پہلا تھپڑ حاجی جمیل نے میرے منہ پہ جڑا ،( حالانکہ حاجی صاحب کی میں نے ہمیشہ خدمت کی، جب بھی حاجن بیمار ہوتی یا میکے جاتی تو حاجی صاحب مجھے چپکے سے گھر بلا لیتے تھے ) (یہ جملہ حزف کیا گیا ہے)  “حاجی صاحب کو دیکھتے ہی دیکھتے سب نمازی مجھ پہ پل پڑے ، وہ تو شکر ہے پولیس کی گاڑی پاس سے گزر رہی تھی جو مجھے ان سے بچا کر تھانے لائے ہیں “
یہ کہ کر ببلی خاموش ہو گئی ، آنسو اسکی آنکھوں سے تیزی سے نکل رہے تھے اور وہ سسکیوں کو دبانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔
ابھی ببلی کا  بیان مکمل ہوا ہی ہے کہ تھانے سے باہر نعروں کی آواز سنائی دے رہی ہے ، اردلی نے آ کر بتایا ہے کہ مسجد کے تمام نمازی دیگر محلے داروں کو ملا کر جلوس کی صورت تھانے کے باہر جمع ہو رہے ہیں اور ببلی کے خلاف گستاخی مذہب کا مقدمہ درج کروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
میں مجمعے کو جا کر ملا ہوں ،مجھے دیکھتے ہی انکے نعروں میں شدت آ گئی ، میں نے بھی نعروں کا جواب دیا ہے اور ان سے وعدہ کر آیا ہوں کہ ابھی مقدمہ درج کرتا ہوں ۔
ایس پی صاحب کی کال آ گئی ہے ، میں انہیں یہ رپورٹ دے رہا ہوں ۔
اس وقت تک تفتیش ہوتی رہی ہے ، مدعی حاجی جمیل کی تحریری درخواست پر ببلی کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کر لیا ہے ، ملزمہ کو گرفتار کر کے بند حوالات کر دیا گیا ہے ، روانہ تفتیش ہوتا ہوں۔”
ابھی میں نے ملزمہ ببلی کو بند حوالات کیا تو میں اس سے نظریں چراتا ہوا تھانے سے نکل رہا ہوں ، پیچھے سے اسکی آوازیں میرے کان پھاڑ رہی ہیں
وہ کہ رہی تھی
” خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”
 
 

شفیق خان بلوچ ایڈووکیٹ کی دیگر تحریریں