وقت کی بنیاد پر دہر کی تعمیر ہے
خواب ہے سارا جہاں اور یہ تعبیر ہے
اس کی ہی آغوش میں سونا ہے پھر ایک بار
اس کے سوا اور کچھ شرح نہ تفسیر ہے
–
جب سے ہم آئے یہاں قافلہ بھی ہیں رواں
اس کی خبر کچھ نہیں کس کی ہے منزل کہاں
جانتے ہیں اس قدر سب کو ہے جانا ضرور
وقت حدی خواں بھی ہے وقت ہی میلِ نشاں
–
جیسے ہوا میں جھکیں پودوں کے سر بار بار
وقت کا فرماں کوئی ٹالے ، نہیں اختیار
اس کے اشارے پہ جب ہوتی ہیں خم گردنیں
مرنے کہ جینے پہ کیوں روئیے پھر زار زار
ترجمہ: جعفری علی خاں اثر لکھنوی