وقت

یہ تحریر 2106 مرتبہ دیکھی گئی

وقت کی بنیاد پر دہر کی تعمیر ہے

خواب ہے سارا جہاں اور یہ تعبیر ہے

اس کی ہی آغوش میں سونا ہے پھر ایک بار

اس کے سوا اور کچھ شرح نہ تفسیر ہے

جب سے ہم آئے یہاں قافلہ بھی ہیں رواں

اس کی خبر کچھ نہیں کس کی ہے منزل کہاں

جانتے ہیں اس قدر سب کو ہے جانا ضرور

وقت حدی خواں بھی ہے وقت ہی میلِ نشاں

جیسے ہوا میں جھکیں پودوں کے سر بار بار

وقت کا فرماں کوئی ٹالے ، نہیں اختیار

اس کے اشارے پہ جب ہوتی ہیں خم گردنیں

مرنے کہ جینے پہ کیوں روئیے پھر زار زار

ترجمہ: جعفری علی خاں اثر لکھنوی