معاصر اردو تنقید اور حلقہ ارباب ذوق

یہ تحریر 2514 مرتبہ دیکھی گئی

جس جگہ یا جس شخص سے آدمی انسیت کے جذبات رکھتا ہو اس کے بارے میں بات کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایک حجاب سا ہمیشہ تنا رہتا ہے۔ آدمی کی کیفیت ایسے ہوتی ہے جیسے وہ اپنے بالمقابل آپ کھڑا ہو۔ آئینہ اپنی شبیہہ کے جتنا قریب کرتے جائیں گے تصویر اسی قدر ناقابل شناخت ہوتی جائے گی۔ حلقہ اور راقم کا تعلق کچھ اسی نوعیت کا ہے۔

معاصر اردو تنقید اور حلقہ اربابِ ذوق کی تنقید بڑا بسیط موضوع ہے۔ ایک مختصر تحریر میں اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے کوئی ایک سمت دی جا سکتی ہے۔ ناقدین اپنے اپنے مطالعے اور اپنی اپنی لیاقت کی بنیاد پر تعینِ قدر کا فریضہ ماضی میں بھی ادا کرتے رہے ہیں اور آج بھی اس شمعِ فروزاں کی ضو میں شمّہ برابر کمی نہیں آئی البتہ ایک عنصر ضرور ایسا ہے جس کے سبب ہم ماضی اور لمحہئ موجود کی تنقید کو اپنے لیے کچھ آسان کر سکتے ہیں اور وہ عنصر دنیا کے عالمی گاؤں بن جانے کا ہے۔ آج کے نقاد کے سروکاروں کی نوعیت میں کل کی نسبت زیادہ تنوع اور گھمبیرتا ہے۔ وہ خود کو کھینچ کر دنیا کے برابر کرنے پر تلا بیٹھا ہے کہ کسی طرح تہذیبِ عالم کا مابعد چُغہ اسے پورا آ جائے۔ اسے یہ بات کون بتائے کہ مانگے ہوئے کپڑے کبھی اس طرح نہیں جچتے جس طرح اپنا لباس سج سج جاتا ہے۔

معاصر اردو نقاد بیانیوں کے غلغلے میں زیست کر رہا ہے۔ ان بیانیوں نے اس کے مزاج میں ایک عبقریت پیدا کر دی ہے۔ وہ ایک اونچی چوٹی پر بیٹھ کر ادب کی ”خدمت“ کر رہا ہے۔ اس بلندی نے اُس کے لہجے میں گمبھیرتا پیدا کر تی ہے۔ اُس کے علم الکلام کے سامنے صاحب فسانہئ عجائب اور ابوالکلام آزاد کا اسلوب ہیچ محسوس ہوتے ہیں۔ بیانیوں کے بیان میں جناتی لفظیات کا استعمال ہاتھی پر بیٹھ کر پدی کے شکار کے مترادف محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں والٹیئر کی ایک بات یاد آتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آپ جو بات کر رہے ہیں شاید میں اس بات سے اتفاق نہ کر سکوں مگر اس بات کے کہنے کا حق دلانے کے لیے میں جان کی بازی لگا دوں گا۔ جی ہاں ادب میں حلقہ ارباب ذوق کی تنقید پر اس سے اچھا تبصرہ شاید ہی کسی نے کیا ہو جیسا والٹیئر کی اس بات کی مدد سے کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس کا سیاق و سباق مختلف ہے۔ حلقے نے ستر سال سے اپنی اس تابندہ روایت کو تھاما ہوا ہے اور وہ روایت ہے انسانی رائے کی آزادی کی روایت۔ حلقہ میں فن پارے کی قدر و منزلت کے تعین کو سمجھا جائے تو اس میں فوری ردِعمل کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ آدمی کو اسی وقت فن پارہ پڑھ کر اس کے بارے میں رائے دینا ہوتی ہے۔ اس فوریت میں فن پارے کے کچھ محاسن کچھ معائب سمجھ میں آ جاتے ہیں اور کچھ رمزیں تشنہ رہتی ہیں۔ عدم تکمیل کا بھی اپنا حسن اور اپنی بدصورتی ہوتی ہے۔

آج اقوامِ عالم میں تہذیبی سطح پر بڑی اتھل پتھل ہو رہی ہے۔ تاریخ کا خاتمہ، تہذیبوں کا ٹکراؤ جیسی کتابوں کا چرچہ ہے۔ ترکیب میں پوسٹ کا لفظ لازم سابقہ بنتا جا رہا ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم، پوسٹ سٹرکچرل ازم جیسے الفاظ کا استعمال۔ یوں لگتا ہے کہ ایک تہذیب اپنا بستر لپیٹ رہی ہے اور ایڈہاک کلچر اس کی جگہ لے رہا ہے۔ ایسے میں ہماری تہذیب، ہماری تنقیدی اصطلاحات کیا بیچتی ہیں۔ سگنی فائیڈ، سنگنی فائر، پارول، ریفرنٹ اور لینگ کے سامنے تلمیح، تشبیہہ، استعارہ، مجاز مرسل، کنایہ، ابہام، ایہام اور مراۃ النظیر کیا بیچتی ہیں۔ مگر اس بات کا کیا کیا جائے کہ کچھ لوگوں کو گھاٹے کا سودا عزیز ہوتا ہے۔ وہ کام جو میراجی نے کیا، ناصر کاظمی اور انتظار حسین نے کیا، احمد مشتاق، مظفر علی سید اور جیلانی کامران نے کیا، محمد حسن عسکری، سجاد باقر رضوی، سہیل احمد خان اور سراج منیر نے کیا۔ اسی طرح مشرقی اساس سے جُڑے رہنے والے حلقہئ اربابِ ذوق کے ناموں کی ایک کہکشاں ہے جس کے اندراج کو وقت درکار ہے۔

پیش بینیاں، علمِ نجوم اور مابعدجدید تنقید کو مبارک۔ ہمیں تو ہر اتوار کی شام حلقہ اربابِ ذوق کے آشفتگاں کی اس سبھا میں پیش کی جانے والی تحریروں سے علاقہ ہے جس کا مقصد طے شدہ نظریات کی زنجیریں پہنانا نہیں جس طرح تنقیدی تھیوریوں کی دنیا میں ہوتا ہے۔ جدید تنقیدی نظریے، تخلیق کی شکتی کے بغیر ہوا میں قلعے بنا کر خود مکتفی ہونے کا دم بھر رہے ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق نے کھلی بانہوں ان سب بحثوں کا خیر مقدم کیا۔ قدیم، جدید، رومان، ترقی پسندی، تجرید، علامت، جدیدیت، مابعد جدیدیت کسی ایک حلقہ نے کسی ایک نظریے کی پرستش نہیں کی۔ یہ کبھی نظریات کی پرستش کا کاروبار حلقے کی تنقید کا حصہ اس طرح کبھی نہیں رہا جس طرح آج کل کی مابعد جدید تنقیدی دنیا کا وظیفہ بن چکا ہے۔ حلقہ کا کردار درخت کی مانند ہے جو خاموش ہے اور اس کے نیچے بھانت بھانت کا پنچھی اپنی اپنی بولی بول کر اُڑا جا رہا ہے۔ حلقہ کی اس ثمر آوری میں میراجی کا صبر شامل ہے۔ محمد سلیم الرحمٰن کی کسی نظم کا مصرع ہے:

”جو چمکتے ہیں انھیں روشنی کے رائیگاں جانے کا دکھ نہیں ہوتا“

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/