مصرمیں اُردوكےپاکستانی اساتذہ

یہ تحریر 408 مرتبہ دیکھی گئی

پروفیسرڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم سابق صدرشعبۂ اُردو، جامعۂ ازہر 1986ءمیں حکومت پاکستان نے اُردوزبان اورپاکستانی ثقافت کی تدریس کے لیے الازہر یونی ورسٹی میں دو پاکستان چیئرز قائم کیں ۔ پشاور یونیورسٹی کے سینئر استاد اور صدر شعبہ اردو ڈاکٹر عبد الستار جوہر پراچہ مرحوم ان میں سے ایک چیئر پر سکالر مقرر ہوئے ۔ انہی کے ساتھـ دوسری چئیر پر سیالکوٹ کے مری کالج کے پروفیسر جمیل انجم مقرر ہوئے ۔ یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ڈاکٹر عبدالستار پراچہ اور پروفیسر جمیل انجم سميت پاکستان کے جن معروف اور سینئر اساتذہ کا تقرر مصر ميں پاکستان چیئر پر الازہر یونی ورسٹی میں ہوا ان کے نام درج ذيل ہيں :
(1) ڈاکٹر عبدالستار جوہر پراچہ (الازہر یونی ورسٹی: 1984ء – 1989)
ڈاکٹر عبد الستار جوہر پراچہ، پشاور یونیورسٹی کے سینئر استاد اور صدر شعبہ اردو، پہلے پاكستانى استاد تهے جنہوں نے مصرى جامعات ميں پاکستان چیئر پر كام كيا – اس سے زياده في الحال معلومات ميسر نہيں – اميد ہے كہ مستقبل ميں معلومات كى كمى كو پورا كيا جا سكے گا – ڈاکٹر پراچہ مرحوم نے “مصر ميں اردو” كے عنوان سے ايک مقالہ لكها ہے جس ميں انہوں نے الازہر یونی ورسٹی میں اُردو كے حوالے سے لکھا ہے: “الازہر یونی ورسٹی میں اُردو کی باقاعدہ تعلیم 1971ء میں شروع کی گئی۔ سال اوّل سے سال چہارم تک اسے بطور بنیادی مضمون کے رکھا گیا ۔ لیکن الازہر کے لیے بھی اُردو اساتذہ کا مسئلہ رہا۔ ڈاکٹر امجد حسن، جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے، الازھر یونیورسٹی میں اُردو تدریس کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ہیں۔ قاہرہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم سمیر عبد الحمید، جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے، ان کے ساتھـ شامل ہوگئے ۔ بعد میں ڈاکٹر سمير عبد الحمید جاپان چلے گئے ۔ چند سال بعد سعودی عرب، پھر طویل عرصے کے بعد جاپان چلے گئے ۔ اس وقت وہ جاپان میں مقیم ہیں ۔ الازہر میں طلباء کی تعداد اچھی خاصی رہی لیکن ذریعہ تعلیم عربی ہونے کی وجہ سے طلبا اُردو بول چال میں کامیاب نہ ہوسکے” ۔
(2) پروفیسر جميل انجم (الازہر یونی ورسٹی: 1984ء – 1989)
پروفیسر جميل انجم كا تقرر ڈاکٹر عبد الستار جوہر پراچہ كے ساتهـ الازہر یونی ورسٹی میں پاكستان چئیر پر ہوا – انجم صاحب كا تعلق مرى كالج سيالكوٹ سے تها۔ پروفسر جمیل انجم نے اردو کى کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی گائیڈ بکس خاص طور پر مشہور ہیں ۔ وہ سب سے پہلے مصر گئے ۔ جس کی وجہ سے ان کو کافی مصائب ومشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر وہ ان مشكلات ومصائب سے بہت ہمت وحوصلے نبرد آزما ہوئے اور بعد ميں مصر آنے والے اساتذه کے لیے راہ ہموار کر دی –
(3) ڈاكٹر امجد حسن سيد احمد (1988ء – 1996ء)
ان كا ذكر پہلے كيا جا چكا ہے –
(4) ڈاکٹر نثار احمد قریشی (الازہر یونی ورسٹی: 1995ء – 1998ء)
اردو زبان وادب کے حوالے سے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا – وہ پاکستان چئیر پر 1995ء میں مصر تشریف لائے ۔ تین سال تک تدریسى خدمات انجام دیتے رہے ۔ اپنے قیام مصر کے دوران وہ مصری نوجوانوں کو میر وغالب اور اقبال کی زبان سے روشناس کراتے رہے ۔ آپ کے طریقہ تدریس کو مصر میں سراہا گیا ۔ ڈاکٹر نثار قریشی کا 2007 ء میں انتقال ہوا.
ڈاکٹر نثار احمد قریشی مرحوم علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے تهے – وه صدر شعبہ اردو اور ڈين فيكلٹى بهى تهے – ڈاکٹر نثار قریشی مرحوم نے مصر میں ره كر دو نصابی کتابیں لکھیں جن کے نام درج ذیل ہیں:
1 – مشاہیر شعرِ اردو، قاہرہ 1998ء ۔
2 – مشاہیرِ نثرِ اردو ، قاہرہ 1998ء –
(5) ڈاکٹر نجیب جمال (الازہر یونی ورسٹی: 1998ء – 2002ء)
ڈاکٹر نجیب الدین جمال، سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس ، دی اسلامیہ یونی ورسٹی، بھاولپور ۳ مئی 1953ء میں پیدا ہوئے ۔ پاکستان چئیر پر 1998ء سے لے کر 2002ء تک الازہر یونی ورسٹی (بنین وبنات)، اور عین شمس یونی ورسٹی میں اردو زبان وادب اور پاکستانی ثقافت کی تعلیم وتدریس کى غرض سے مصر تشریف لاے ۔ ڈاکٹر صاحب نے درس وتدریس کے علاوہ تالیف وتصنیف اور ایم اے اور پی ایچ ڈی کے سکالرز کی نگرانی کا فریضہ بھی ادا کيا ۔ مصر میں اردو کے حوالے سے ڈاکٹر نجیب الدین جمال کی خدمات قابل ستائش ہیں ۔ درج ذیل ڈاکٹر نجیب الدین جمال صاحب کی تصانیف اور مقالات درج ذيل ہیں:
1 – آئیے اُردو بولیں، عرب طالبعلموں کے لئے اردو زبان سیکھنے کا پروگرام کیسٹ اور کتاب، جو سفارتخانہ پاکستان، قاہرہ نے 2001ء میں شائع کیا ۔
2 – امیر خسرو سے میر حسن تک، قاهره 2002ء –
3 – الشعر الاردی فی القرن الثامن عشر (اردو – عربى)، قاهره 2001ء –
1 – اردو زبان اور ابلاغِ عام، روایت ، اہمیت اور تقاضے ۔
2 ۔ شاعری: فن کا مؤثر ترین اظہار ۔
3 – اردو ڈراما کا ارتقا اور سعادت حسن منٹو کی ڈراما نگاری ۔
4 – جدید عربی نظموں کے منظوم اردو تراجم ۔
5 – فیض احمد فیض کی شاعری نئے عالمی تہذیبی نظام کی تمہید ۔
6 – اردو کی قدیم شاعری پر لوک روایت کا اثر ۔
7 – جدید ادو شاعری اور عصرِ حاضر کی عورت ۔
8 ۔ فیض احمد فیض کی شاعری میں عربی الفاظ واصطلاحات ۔
9 – علامہ اقبال کا نظریہ تعلیم ۔
10 – نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں انسانی رواداری ۔
13 – محمود درویش کی نظموں کے اردو تراجم ۔
14 – مصر اور اردو کے سفر نامے، بحوالہ خصوصی اردو کا تازہ ترین سفر نامہ (ذوقِ دشت نوردی) ۔
ڈاکٹر نجیب الدین جمال صاحب ان تصنیفات اور مقالات کے حوالے سے اپنی کتاب (ندوة النیل) میں لکھتے ہیں: “یہ سب مضامین مجھے اس لئے بھی عزیز ہیں کہ یہ میرے قیامِ مصر کی یادگار ہیں ۔ میرے لئے یہی اعزاز کیا کم ہے کہ مجھے وزارتِ تعلیم حکومتِ پاکستان نے اردو زبان وادب کی تدریس کے لئے جامعہ ازہر کے کلیہ لغات وترجمہ میں اردو اور پاکستان سٹڈیز کی چئیر پر چار سال (1998ء – 2002ء) کے لئے تعینات کیا اور مجھے نہ صرف جامعہ ازہر بلکہ سفارت خانے کے اصرار پر جامعہ عین شمس میں اعزازی طور پر پڑھانے اور تحقیقی مقالات کی نگرانی کا موقعہ بھی میسر آیا ۔
(ندوة النیل) میں شائع ہونے والے مضامین کے حوالے سے ڈاکٹر نجیب الدین جمال صاحب مزید لکھتے ہیں : اس کتاب میں موجود دس مضامین ایسے ہیں جو مصر کی مختلف جامعات اور وزارتِ ثقافت کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے بین الاقوامی سیمی ناروں میں عربی ترجمے کے ساتھـ پڑھے گئے ۔ ان تمام مضامین کے عربی تراجم شعبہ اردو، کلیة البنات، جامعہ ازہر کے چئیرمین ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے کئے، اور وہی میرے ساتھـ ندوات میں ترجمان کے طور پر شریک رہے ۔
(5) ڈاکٹر مظفر عباس (الازہر یونی ورسٹی: (2000ء – 2003ء)
ڈاکٹر مظفر عباس صاحب لاہور میں پیدا ہوئے ۔ ایم اے اردو پنجاب یونی ورسٹی سے کیا ۔ پھر ایم اے ایجوکیشن برسٹل یونی ورسٹی، برطانیہ سے حاصل کیا ۔ اس کے بعد پی ایچ ڈی اردو پنجاب یونی ورسٹی سے حاصل کی ۔ انہوں نے اپنی عملى زندگی کا آغاز بطور لیکچرار 1971ء میں کیا ۔ آغاز میں گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ میں تدریسى فرائض انجام دیئے ۔ وہ 1984ء تک گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ تدریس سے وابستہ رہے ۔ 1984 ء میں گورنمنٹ کالج بھکر، گورنمنٹ ٹی آئی کالج ربوہ اور گورنمنٹ کامرس کالج فیصل آباد میں پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے ۔ 2001 ء تک پرنسپل گورنمنٹ ایف سی کالج لاہور رہے ۔
ڈاکٹر مظفر عباس صاحب ایک ذمہ دار، مخلص، بے غرض اور نہایت متحمل مزاج استاد ہیں ۔ وه ہمہ تن خدمت خلق میں مصروف رہتے ہیں ۔ وه کشادہ قلب کے مالک ہیں ۔ مصری جامعات کے اساتذہ اور طلبہ آج بھی انھیں یاد کرتے رہیں – مصر سے واپسى کے بعد وه ڈائریکٹر آرٹس اینڈ سوشل سائنسز، یونی ورسٹی آف ایجوکیشن بھی رہے ۔
ڈاکٹر مظفر عباس صاحب مارچ 2001ء میں مصر تشریف لے گئے ۔ اور مارچ 2004ء میں پاکستان واپس تشریف لے آئے ۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: “میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے یہاں (مصر میں) انتہائی علمی ماحول میسر آیا ۔ مصر کی تمام جامعات میں سالانہ قومی وبین الاقوامی کانفرنسوں کی روایت با قاعدہ طور پر موجود ہے ۔ چنانچہ اپنی مصر آمد کے ساتھـ ہی اپریل 2001 ء میں مجھے منصورہ یونی ورسٹی کی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے اور مصر کی کسی جامعہ میں اپنا پہلا مقالہ پیش کرنے کا موقع ملا اس تین سالہ قیام کے دوران میں، میں نے کم وبیش بارہ قومی یا بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی ۔ اور مختلف اور متنوع موضوعات پر مقالات پیش کئے ۔ ان میں جامعہ الازہر قاہرہ، جامعہ عین شمس، جامعہ منصورہ، قومی مجلس ثقافت مصر اور انجمن اساتذہ علومِ شرقیہ کی کانفرنسیں قابلِ ذکر ہیں ۔
ڈاکٹر مظفر عباس نے مصر میں قیام کے دوران كئى كتابيں لكهيں – لكهتے ہيں: مصر میں یہ كتاب (یعنی مقالاتِ مصر) میری پانچویں کتاب ہے ۔ اس سے بیشتر تین کتابیں جامعات کی نصابی ضروریات کے تحت مرتب کر کے شائع کر چکا ہوں ۔ سفارت خانہ پاکستان (قاہرہ) کے زیرِ اہتمام یومِ کشمیر کے حوالے سے منعقد ہونے والے سیمی نار کے کانفرنس پیپرز کی تدوین اس کے علاوہ ہے ۔ یہ کتاب عربی اور انگریزی دو زبانوں میں گزشتہ سال (2003ء) سفارت خانہ پاکستان، قاہرہ کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی تھی ۔ درج ذيل ڈاکٹر مظفر عباس صاحب كى (مصر ميں قيام كے دوران) تصنيفات وتاليفات اور مقالات كى مختصر فہرست ہے:
1 – اعلام شعر اُردو، قاهره 2001ء –
2 – اعلام نثر اُردو، قاهره 2002ء –
3 – نصاب اُردو، قاهره 2003ء –
4 – کشمیر: الماضی والحاضر (2003ء میں کشمیر کے حوالے سے منعقد سیمینارکے مجموعہ مقالات) ۔ قاهره 2003ء –
5 – مقالات مصر، قاهره 2004ء
6 ۔ انسانی فکر پر اسلامی تہذیب کے اثرات: تجزیاتی مطالعہ ۔
7 ۔ اردو شاعری پر اسلامی تہذیب کے اثرات ہندو شعرا کے حوالے سے ۔
8 ۔ دورِ حاضر کی پاکستانی شاعری میں عصری مسائل کا ادراک ۔
9 – امراؤ جان ادا میں عورت کی نفسیاتی تصویر کشی ۔
10 ۔ عربی ناول کے اردو تراجم : تاریخی پس منظر، مسائل ومشکلات ۔
11- اردو میں منظوم عربی تراجم ۔
12 ۔ انتظار حسین کے افسانوں میں عالمِ عرب کی صورتِ حال : شرم الحرم کی روشنی میں۔
12 ۔ علامہ اقبال کی شاعری میں عربی ودینی اصطلاحات ۔
13 ۔ اردو زبان: بانی پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کی نظر میں ۔
14 – انتفاضہ فلسطین کے جد وجہد آزادیء کشمیر پر اثرات ۔
15 ۔ مصر میں اردو کی تدریس میں پاکستانی اساتذہ کی خدمات: تاریخ وتجزیہ ۔
16 – فیض احمد فیض کی شاعری میں یہود کا تصور مصر میں اردو كے پاکستانی اساتذہ
(6) ڈاکٹر زاهد منير عامر (الازہر یونی ورسٹی: 2007- 2010ء)
پنجاب یونی ورسٹی کے معروف استاد ۔ جنوری 2008 ء میں مصر تشریف لائے اور مسلسل تین سال، يعنى 2010ء تک تدریسى فرائض انجام دیتے رہے ۔ وہ استاد ہونے کے ساتھـ جيد شاعر بھی ہیں ۔ ان کے شاعری كے انتخاب کا عربى میں ترجمہ (بدایات ونہایات) کے نام سے راقم الحروف نے کیا –
(7) ڈاكٹر اختر شمار (عين شمس يونى ورسٹی: (2008ء – 2012ء)
ڈاکٹر اختر شمار کا اصل نام محمداعظم خان ہے۔ وہ 17 اپریل 1960ء کو راولپنڈی کے قریب ایک گاﺅں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد اکبر خان نے ایک عرصہ پاکستان آرمی میں خدمات سر انجام دیں۔آپ کے دادا نواب خان کا تعلق اسی گاﺅں کے ایک زمیندار گھرانے سے تھا۔ اخترشمار اپنے پانچ بھائیوں میں چوتھے پرنمبر ہیں ۔ ان کے سبھی بھائیوں نے کسی نہ کسی طرح پاک آرمی میں وطنِ عزیز کی خدمت کی۔ آپ کے والد آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد ملتان میں مقیم ہو گئے اور وہیں پاک عرب کھاد فیکٹری میں ملازمت کرنے لگے۔ اختر شمار نے اپنی ابتدائی تعلیم گاﺅں کے علاوہ ملتان میں مکمل کی جبکہ ایم ۔ اے اسلامیہ یو نیورسٹی بہاول پور اور پی ایچ ڈی کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔
ڈاکٹر اخترشمار نے اپنے کیریئر کا آغاز صحافت سے کیا۔ وہ کچھـ عرصہ مقامی اخبارات سے منسلک رہے، بعد ازاں نوائے وقت ملتان میں ادبی کالم نگاری کرنے لگے۔ کچھـ عرصہ مقامی اخبارات سے وابستہ رہنے کے علاوہ ریڈیو، ٹی وی کے لئے گیت اور ڈرامے لکھتے رہے ۔2003ء میں انہوں نے ”خیام الہند سید جلال الدین حیدر دہلوی احوال وآثار“ کے موضوع پر مقالہ لكهـ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ایف سی کالج میں بطور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ خدمات سر انجام دینے لگے ۔ اسی دوران، يعنى مارچ 2008ء میں، انہیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے اردو اینڈ پاک سٹدیز چیئر کے لئے منتخب کر کے جامعہ عین شمس قاہرہ بھیج دیا گیا ۔ جہاں وہ جامعہ عین شمس کے علاوہ جامعہ الازھر کے بوائز اور گرلز دونوں اردو شعبوں میں بھی دسمبر 2012ء تک تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر اختر شمار صاحب اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر ہی نہیں، معروف کالم نگار (روزنامہء نوائے وقت لاہور) اور اچھوتے کہانی کار بھی تهے ۔ علاوہ ازیں انہیں پاکستان کا پہلا ادبی اخبار [بجنگ آمد] شائع کرنے کا اعزاز بھی حاصل تها ۔
اس مختصر جائزے كے بعد ہم يہ كہہ سكتے ہيں كہ اردو کے پاکستانی اساتذہ مصری طلبہ اور اساتذہ کے لئے بھی کسى دولت سے کم نہیں ۔ انہوں نے مصر میں اردو پڑھانے کے میدان میں بہت محنت اور لگن کا مظاہرہ کیا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اور بالخصوص ڈاکٹر نجیب الدين جمال اور ڈاکٹر مظفر عباس مصريوں كے ساتھـ اچھے تعلقات قائم کئے ۔ ان تعلقات کی بدولت آج بھی پاکستانی اساتذہ کا مصری یونی ورسٹیوں کے ساتھـ تعلق قائم ودائم ہے ۔
در اصل مصر میں اردو کے پاکستانی اساتذہ كے حوالے سے سنہرا دور ڈاکٹر نجیب الدین جمال اور ڈاکٹر مظفر عباس کے دور کو کہا جا سکتا ہے ۔ ان کے دور میں اردو کا مصر میں نہ صرف تعارف بڑھا، بلکہ لوگ اردو کو جاننے، پہچاننے اور اس سے محبت کرنے لگے ۔ اسی حوالے سے پاکستان کے بارے میں بھی لوگوں میں جانکاری بڑھی ۔ ان اساتذہ نے پہلے اپنے طلبہ، اور مصری عوام سے محبت کی ۔ ان کی عزت کی اور پھر محبت اور عزت کروائی ۔ اس کی بڑی وجہ میری نظر میں یہ تھی کہ یہ دونوں حضرات پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود انتہائی عاجزی ومحبت اور بے تکلفی سے سب کے ساتھـ پیش آتے اور سب كے دلوں میں گھر کرتے گئے ۔ پہلے انہوں نے محبت ودوستی کا ہاتھـ بڑھایا، بغیر کسی غرور وتکبر کے، بغیر اپنے عہدوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ۔ اور پھر یہ عمر کے بھی اس حصے میں تھے کہ سب ان کا احترام کریں ۔ ان دونوں نے اپنی سلجھی ہوئی عادتوں اور سنجیدہ رویے کی وجہ سے احترام کروایا ۔ انہوں نے مصر میں ہى رہتے ہوئے کتابیں بھی لکھیں ۔ وه طلبہ کو اپنے گھروں میں بلاتے ۔ پاکستانی کلچر سے تعارف کرواتے تهے ۔ یہ وہ چیزیں اور طریقے تھے کہ جن سے مصری طلبہ پہلے اساتذہ کے اور پھر پاکستانی کلچر کے قریب ہوئے ۔ اور اردو اور پاکستان سے محبت کرنے لگے ۔ یہی اگر اپنی اپنی کرسی پر اکڑ کر بیٹھے رہتے اور زیادہ تر کلاسز چھوڑ کر گھروں میں آرام کرتے تو آج مصر میں ان کو کوئی بھی یاد نہ کرتا ۔ کلاسز کو زیادہ سے زیادہ وقت دینا بھی ان کی خاصیت تھی ۔ ان دونوں نے اپنے طلبہ کے ساتھـ بہت محنت کی ۔ اپنے پیشے اور کرسی کے ساتھـ انصاف کیا ۔ تو آج ان کے نام مصر میں زندہ ہيں