مسعود میاں

یہ تحریر 2063 مرتبہ دیکھی گئی

مسعود میاں سے میں صرف ایک بار ملا ہوں اور وہ بھی تھوڑی دیر کو ۔پھر وہ پہلی ملاقات والی ہچکچاہٹ بھی بیچ میں رہی….پر پھر بھی میں ان کے بارے میں کچھ جان گیا ہوں۔کچھ ایسا ہوا جس نے انہیں میرے شہرکے دوسرے لاکھوں لوگوں سے ممتاز کر دیا۔ایسا نہیں ہے کہ اب اگر میں کبھی انہیں سڑک پر جاتے ہوئے دیکھ لوں تو گاڑی روک کر دوڑتا ہوا انکے پاس چلا جاﺅں گا یا پھر حاشا وکلّا اس کہانی کا مقصد انہیں ڈھونڈ نکالنا ہرگز نہیں ہے(آخر یہ کوئی تلاشِ گمشدہ کا اشتہار نہیں ہے)۔میں سچ کہتا ہوں کہ بہت ممکن ہے وہ بس میں میرے ساتھ کھڑے رہیں اور میں انہیں پہچان بھی نہ پاﺅں(چہروں کے معاملے میں میں ایسا ہی بھلکڑ ہوں)۔

مگر مسعود میاں صرف وہ تو نہیں ہیں جو اس دن میرے گھر آئے تھے۔ ایک مسعود میاں اور بھی ہیں۔ وہ بھی انہی کی طرح سانس لیتے ہیں،انہیں بھی رزق ملتا ہے۔ بس ہمیں ان کا شعور نہیں ہے۔ میں اگر انہیں مسعود میاں کا تصور کہوں تو بہت سے نقاد چلا اٹھیں گے کہ ”تصور کی جسم سے بالا بالا کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ تصور تو ایک عکس کی مانند ہوتا ہے۔جب جسم آئینے کے سامنے نہ رہے تو عکس کی رخصت بھی لازم ٹھہرتی ہے۔“ اور یہ لوگ کچھ بہت غلط نہیں ہیں۔ کم ازکم سادہ منطق تو یہی کہتی ہے۔تو چلو آسانی کیلئے میں مانے لیتا ہوں کہ جسم ہٹنے پر عکس آئینہ چھوڑ دے گا۔لیکن وہ جائے گا کہاں؟مانا کہ وہاں نہیں رہے گا مگر کہاں؟اب عدم تو کوئی ایسی جگہ ہے نہیں جہاں کوئی محسوس ہونے والی شئے جا سکے۔ فلسفے کی بڑی پرانی بحث ہے کہ کوئی شئے معدوم نہیں ہو سکتی۔چیزیں ہمیشہ سے ہیں اور رہیں گی۔ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ ان کی حالت بدل جائے یا پھر وہ ہمارے سامنے نہ رہیں۔تو ہم مان لیتے ہیں کہ وہ عکس آئینے میں نہیں رہتا مگر کیوں وہ کسی سنسان پہاڑی پر گوشہ نشین بھی نہیں ہو سکتا؟دریاﺅں میں کشتی رانی نہیں کر سکتا؟آخر ہمارا مدعا تو یہی تھا نہ کہ وہ آئینے میں نہ رہے؟

مجھے معلوم ہے کہ اب اور سوال اٹھیں گے۔ لوگ تو یہاں تک کہ اٹھیں گے کہ ”میاں !اگر آپ کے کہنے کے مطابق ہر عکس اور تصور کو زندگی دے دی جائے تو پھر اس دنیا میں کہیں کوئی سنسان گوشہ نہیں بچے گا۔آپ دریا پر جاﺅ گے تو تمام دن انتظار کرنے پر بھی کشتی میں سواری کا موقع نہ ملے گا۔ پہاڑی مقام کی سیر پر جاﺅ گے تو وہاں یہ عکس ریل میں ٹھنسے ہجوم کی طرح بھرے ہوں گے اور آپ کو تازہ ہوا کھانے کیلئے واپس شہر ہی آنا پڑے گا….کہیے کچھ جواب اس کا بھی ہے آپ کے پاس؟“

میرے خیال میں تو یہ تمام اعتراضات بڑے معقول ہیں۔ یقینا اگر ایسا ہوا تو دنیا میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہے گی….پر کس نے کہا کہ دنیا ایک ہی ہے؟جب لیو وین ہوک نے پہلی مرتبہ تالاب کے گدلے پانی کو خوردبین کے نیچے دیکھا تو اسے پانی کا کوئی قطرہ نظر نہیں آیا(اور ہمارے معترضین یقینا اس پر برا نگیختہ ہو جائیں گے کہ بھلا ایسی شئے بنا نے کا فائدہ جو پانی کا قطرہ جیسی معمولی چیز نہ دیکھ سکے)۔پر اسنے کچھ اور دیکھ لیا۔ایک بہت بڑی دنیا جس میں ہزاروں،لاکھوں خوردبینی جاندار تھے…. وجود جو زندگی کے ہر معانی میں زندہ تھے ۔ اس دنیا کے اپنے خواب تھے، اپنی عمر تھی،اپنے قوانین تھے….تو ہم کہ سکتے ہیں کہ اسنے ایک دوسری دنیا دریافت کر لی تھی۔ اور یہ دریافت یقینا کولمبس کے امریکہ سے اہم تھی۔ تو ایک دنیا نہیں ہے بہت سی دنیائیں ہیں۔ اور میں صرف یہ کہتا ہوں کہ کسی ایک دنیا میں وہ سارے عکس،وہ سارے تصورات، وہ سارے خواب بہرحال رہتے ہیں۔ اور میں نہیں جانتا کہ ان کی زندگی کیسی ہے….سارا دن ساحلِ سمندر پر اچھلتے بچوں کی طرح پرجوش یا پھر ہمہ وقت اپنے فلیٹ کے اندھیروں میں چھپے قنوطی فلسفیوں کی سی خاموش۔یا شاید وہ ہماری طرح ہی ہوں گے۔ ایک ہی وقت میں خوش،ناراض،پرامید،بیزار اور سب کچھ۔جیسے یہ حالتیں ہر وقت ہمارے اندر ہوتی ہیں بس ان کا تناسب بدلتا رہتا ہے۔کوئی ایک جذبہ ڈامینیٹ تو کر سکتا ہے مگر ہم نہیں کہ سکتے کہ کبھی بھی باقی جذبات معدوم ہو جاتے ہیں۔

آپ شدید سے شدید ترین صورتحال کو ذہن میں لے آیئے۔غالبا وہ لمحہ ایک اچھی مثال ہو سکتا ہے جب آپ غصے سے بے قابو ہوئے جا رہے تھے۔آپ کی آنکھیں خون کی طرح گہری سرخ ہو رہی تھیں۔ بار بار آپ چیزیں اٹھا کر پھینک رہے تھے۔ آپ کے بیوی بچے کہیں کونوں میں دبک چکے تھے….ایسی حالت میں….ایسی حالت میں بھی آپ کے ذہن میں دوسرے خیالات منڈلاتے ہیں۔جیسے یہ احساس کہ میں چیزیں اٹھا کر پھینک تو رہا ہوں مگر کوشش کروں گا کہ اس کی زد میں میرا ٹی وی نہ آ جائے….نہیں،ایک لاکھ روپے کا ٹیلی ویژن بہرحال میرے غصے کے اظہار سے زیادہ قیمتی ہے۔

یا پھر جیسے یہ احساس کہ مجھے تو درحقیقت غصہ آ ہی نہیں رہا ہے۔ پر اگر میں نے اس بات پر بھی غصہ نہ کیا تو اس گھر میں میری کیا حیثیت رہ جائے گی۔ لوگ تو مجھے روندتے ہوئے گذر جایا کریں گے۔ تو مجھے ہر حال میں اپنی گردن کی رگیں پھلانا ہوں گی اور حلق سے وحشیانہ آوازیں نکال کر (جن سے میں خود بھی ڈرا جاتا ہوں)دوسروں کو خوفزدہ کرنا ہو گا۔ تو جذبات کی رو میں بہنا کوئی چیز نہیں ہوتی۔یہ تو ایک فکشن ہے جو نوجوان جوڑوں نے اپنی غیر اخلاقی حرکات کی توجیہ کے طور پر گھڑ رکھی ہے(ہم اس پر یقین کرتے ہیں تو اسلئے کہ کبھی ہم بھی تو جوان تھے)۔یقین کیجئے کہ انتہائے جذبات کی گھڑیوں کے دوران بھی ہم جذبات کی رو میں نہیں بہتے۔ہمیشہ ہمارے کان ادھر ادھر سے اٹھنے والی آوازوں پر لگے رہتے ہیں۔ہمار ا ذہن ایک دوسرے کوزیر کرنے کے نئے نئے طریقے سوچ رہا ہوتا ہے۔حتی کہ خاتون کے ہونٹ چومتے ہوئے آپ گھٹیا سی لپ اسٹک کا ذائقہ بھی اپنے حلق میں اترتا محسوس کرتے ہو….تو جب آپ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں محسوس کر سکتے ہو تو پھر وہ جذبات کی رو کیا ہوئی؟جب آپ مقابل کی بدبودار سانس یا کرسی کے پہلو سے نکلنے والے کیل جیسی حقیر چیزوں کے وجود سے آگاہ ہوتے ہو تو پھر آپ کو اخلاقی قوانین سے آزاد کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟

تو جذبات کی رو کی حقیقت ہے تو بس اتنی کہ ہم ان لمحات سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کی خاطر خود پر یہ کیفیت طاری کر لیتے ہیں۔ اب بہت سے لوگوں کو محبت والی مثال کے ضمن میں تو میری وضاحت یقینا سمجھ میں آ گئی ہو گی مگر غصے میں کیسا لطف،کہاں کا مزا؟ایسا نہیں ہے۔غصے سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔سب سے پہلے تو وہ سرخروئی کا احساس جو سینما میں اپنا پہلا شو دیکھتے کسی ہیروئن کو ہوتا ہوگا۔ لوگ اپنی سیٹوں پر اچھل اچھل کر ناچ رہے ہوتے ہیں اور کوئی جذباتی سین آ گیا تو عورتیں دوپٹے سے آنسو پونچھنے لگ جاتی ہیں….اگر ان سب کو خبر ہو جاتی کہ ہیروئن تو بس ایک عام سی لڑکی ہے جو یہیں اپنی سیٹ میں دھنس کر بیٹھی ہے اور جسے سکول میں بھدی آواز کا طعنہ سننا پڑتا تھا تو سار ا فسوں ٹوٹ جاتا۔تو غصے کی حالت میں پہلا لطف اپنے سحر کے مکمل ہونے کا ہوتا ہے۔اب دوسرے صرف وہی دیکھ سکتے ہیں جو آپ دکھانا چاہتے ہو۔ اب کوئی آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر روح میں چھپے راز نہ جان پائے گا۔ اور پھر غصے میں خون تیزی سے گردش کرنے لگتا ہے،جسم میں توانائی سی بھرنے لگتی ہے۔آپ لوگوں کو جو چاہو کہ ڈالتے ہو۔اور ایسی حالت میں وہ سچ بھی سامنے آ جاتے ہیں جنہین چھپانے میں لوگ عمریں گذار دیتے ہیں(پر کوئی اس پر اچنبھے کا اظہار نہیں کرتا کیونکہ انہیں خود بھی تو غصے کے دوران اپنے من کا بوجھ ہلکا کرنا ہوتا ہے)۔تو دل سے بوجھ ہٹ جاتا ہے۔ ہم بے وزنی کی سی حالت میں ہوا پہ تیرتے پھرتے ہیں اور ہوا میں پرواز کب انسانیت کا خواب نہیں رہی۔

تو بات ہو رہی تھی ایک اور مسعود میاں کی اور اگر انہیں سمجھنا ہے تو ہمیں اس شام میں واپس جانا ہو گا جب اصل مسعود میاں نے میرے گھر کی گھنٹی بجائی۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری پہلی کتاب شائع ہوئی تھی۔اب آپ اگر پاکستان کے ادبی ماحول سے ذرا واقفیت رکھتے ہیں تو بڑی آسانی سے جان جائیں گے کہ ایسی کتاب کا کیا حشر ہو سکتا تھا۔ نہ کوئی ایسی کتابیں پڑھتا ہے،نہ دکانوں پر نظر آتیں ہیں۔بس میرے جیسے لکھنے والے انہیں اپنے دوستوں میں بانٹ دیتے ہیں یا پھرچند مشہور شخصیات کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔شاید اس امید پر کہ کوئی معجزہ ہو جائے۔ لیکن معجزہ کبھی نہیں ہوتا۔البتہ دل بہلانے کا سامان بہرحال فراہم ہو جاتا ہے۔آپ کو چند ایک تعریفی خطوط مل جاتے ہیں۔دوست یا ر مذاق مذاق میں ادیب کہ ڈالتے ہیں جسے کسرِ نفسی سے آپ ماننے پر تیار نظر نہیں آتے اور ایسی ہی چھوٹی سی دنیا کے بیچ ہم کچھ دیر خوش رہ لیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔مجھے بھی چند تعریفی خطوط ،کچھ مبارکباد کے فون موصول ہوئے،غیر متوقع طور پر چند مشہور شخصیات نے شرفِ ملاقات بھی بخشا،چند اخبارات میں تبصرے بھی شائع ہو گئے….اب اس سے زیادہ بھلا میں کیا توقع کر سکتا تھا؟

تو میں جیسے ایک نشے میں سرشار تھا جب مسعود میاں نے میرے گھر کی گھنٹی بجائی۔ میں یہاں مسعود میاں کا حلیہ نہیں بتاﺅں گا مبادا یہ سینڈریلا کے جوتے کی طرح کسی پر فٹ ہو جائے۔ذرا سوچئے اگر واقعی وہ جوتا کسی اور خاتون کے پیر میں پورا آ جاتا تو شہزادے صاحب تو جیتے جی مارے جاتے۔ویسے وہ پرانا دور تھا جس میں سینڈریلا کا جوتا کوئی پہن نہ سکا۔ورنہ آج کے دور میں تو ایک ہی سائیز لاکھوں لوگوں کا ہوتا ہے۔جیسے فرض کریں کہ وہ سائز چھ کا جوتا پہنتی تھی(جو کہ خواتین کا بڑا مشہور سائیز ہے)۔اب اگر آپ یہ جوتا لے کر ڈھونڈنے نکلو تو ہر تیسری خاتون کے پیروں میں یہ اسی طرح فٹ ہو جائے گا کہ جیسے انہی پیروں کیلئے بنا ہو۔ یہاں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سینڈریلا کوئی بہت غیر معمولی پیروں کی مالک تھی۔یا تو وہ بالکل جناتی سائیز کے تھے یا پھر بچوں کی مانند چھوٹے سے۔اور اگر ایسے میں سپاہی اسے ڈھونڈنے نکلتے تو یقینا انہیں کوئی ایسی نوجوان لڑکی ڈھونڈنے میں بہت دقت نہ ہوتی جو سائیز تین یا گیارہ کا جوتا پہنتی ہو(اگر آپ اس شرمندگی کو نظر انداز کر دیں جو ایسا جوتا اٹھائے اٹھائے پھرنے پر انہیں ہوتی)۔لیکن سچ یہی ہے کہ ہم بس نہیں مان سکتے کہ سینڈریلا سی لڑکی ایسے عجیب الخلقت پیروں کی مالک ہو گی….بس کیا کریں یہ ہمارے تصورِ حسن سے لگا نہیں کھاتی۔

ایک وجہ اور بھی ممکن ہے۔ شاید پہلے زمانے میں انفرادی لوگ رہا کرتے ہوں گے۔ہرایک امتیازی خصوصیات کا مالک،ہر ایک علیحدہ سا انسان۔اور اب تو ہجوم کا دور ہے۔اب جو چاہو کر گذرو مگر آپ خود کو کسی ہجوم میں شامل ہونے سے نہیں بچا سکتے۔ جیسے اگر آپ صبح اٹھ کر ورزش کے شوقین ہو تو آپ ان لاکھوں لوگوں میں شامل ہو جو روزانہ ایسا ہی کرتے ہیں۔اگر آپ کوٹ پہنتے ہوئے پہلے بایاں بازو اندر کرتے ہو تو آپ کا انداز ان پچاس کروڑ لوگوں سے ملتا ہے جواس طریقے سے کوٹ پہنتے ہیں۔یہ اعداد وشمار پوری دنیا کے نہیں ہیں کیونکہ تجرباتی طور پر بھی ایسا ممکن نہیں کہ تمام دنیا کے لوگوں کو کوٹ پہنایا جا سکے۔اگر ہم ایسا کر دیتے ہیں تو کم ازکم ایک لمحے کیلئے تو پوری دنیا کی غربت ڈھک جاتی ہے۔ان ذلت کے مارے لوگوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ بھی دوسروں کی طرح انسان ہی ہیں۔اگر ایسا ہو گیا تو افریقہ کے آفت زدہ قصبوں اور ہندوستان کی کچی بستیوں میں کوٹ پہنے جینٹل مین گھومیں گے….نہیں،ایسا ممکن نہیں ہے۔ہماری تہذیب اپنے تمام تر وسائل کے باوجود بھی دنیا کے لوگوں کو ایک گھنٹے کا جینٹل مین نہیں بنا سکتی۔ اور اگر ایسے میں یہ بھوکے لوگ پستول تان کر ہماری چلتی گاڑیاں روک لیں، اگر ایسے میں لوگ سینے پر بم باندھ کر ہمارے پرشکوہ ہوٹلوں کو اڑا دیں تو ہمیں شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔کیونکہ ہمارے وسائل نے ہمیں یہ موقع فراہم کر دیا تھا کہ ہم جب چاہتے ان کا پیٹ بھر سکتے تھے،ہم ہر ایک کو اوڑھنے کا کپڑا دے سکتے تھے،ہر ایک کیلئے سر چھپانے کی جگہ ممکن تھی….ہم یہ سب کر سکتے تھے مگر ہم نے ترجیح دی کہ ہماری الماریان کپڑوں سے بھرتی رہیں جنہیں ہم کبھی نہیں پہنیں گے،ہر شہر میں ہمارے محل بنتے رہیں جن میں خاموشی رقصاں ہو گی،ہمارے معدوں سے زیادہ خوراک جب کوڑے دانوں میں جاتی رہے….ایسے میں ہمیں کنپٹی پر رکھے پستول پر افسوس نہیں کرنا چاہیے کہ یہ تو ہمارا اپنا انتخاب ہے۔

تو بات ہو رہی تھی مسعود میاں کی اور ہمارے اس عہد کی جس میں ہم سب بہت شرمناک حد تک ”عام“ہو گئے ہیں۔تو اگر میں نے ان کا حلیہ بتا دیا تو بہت ممکن ہے کہ بہت سے شخص کل کو میرے دروازے پر آ کھڑے ہوں اور پکارا کریں کہ میں نے کیوں ان کا ذکر اپنی کہانی میں کر ڈالا۔ ان لوگوں میں آپ کو راشد،بلال، چغتائی جیسے ناموں کے لوگ ملیں گے۔لاکھ انہیں سمجھایا جائے کہ یہاں بات مسعود میاں کی ہو رہی ہے مگر سمجھے گا کون؟ ”ہم جانتے ہیں کہ ادیب لوگ علامتیں استعمال کرتے ہیں۔ہمیں خبر ہے کہ بعض اوقات نام تبدیل کرنے پڑتے ہیں۔پر ہمیں یقین ہے کہ بات ہماری ہی ہو رہی تھی….اور آپ کو اس کا کوئی حق نہیں پہنچتا ہے۔“ تو اس مصیبت سے بچنے کا طریقہ صرف یہی ہے کہ مسعود میاں کا حلیہ اور عمر نہ بتائی جائے۔تو بہرحال وہ گیٹ پر موجود تھے اور میں نے لاتعلقی کے انداز سے ان کی طرف دیکھا۔جیسے آپ گیٹ پر آنے والے اجنبیوں کو دیکھتے ہو۔آپ نہیں جانتے کہ وہ کیوں آئے ہیں ۔ مسکرا بھی نہیں سکتے کہ کہیں وہ کچھ مانگ ہی نہ بیٹھیں اور پھر اگر وہ کوئی ڈا کو وغیرہ ہوئے تو پھر….تو ایسے میں آپ بڑی پیشہ ورانہ غیر جذباتیت سے ان سے مدعا پوچھتے ہو۔میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ ”میں نے آپ کی کتاب پڑھی ہے۔“انہوں نے پراعتماد لہجے میں کہا۔ ”آپ نے وہ کتاب کہاں سے پڑھ لی؟ وہ تو کسی دکان پر ہے ہی نہیں۔“میرا انداز سوالیہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میری کتاب انہیں ایک بڑے ادیب کی سٹڈی میں ملی جہاں ان کا آنا جانا تھااور جنہیں بہرحال میں نے وہ کتاب بھجوائی تھی۔میں نے خود کو ایک خوشگوار حیرت میں بھیگتے محسوس کیا۔میں انہیں ڈرائینگ روم میں لے آیا اور چائے کی پیالی کے دوران ہم نے بہت سی باتیں کیں۔انہوں نے کچھ ذکر میری تحریر کا کیا کچھ معاصر ادبا کے بارے میں اظہارِ خیال کیا۔یہ بہر حال ایک کامیاب گفتگو تھی۔مجھے نہ صرف اپنی تحریر کے بارے میں چند اہم پہلووں سے واقفیت ہو گئی بلکہ ایک اعتماد کی سی کیفیت بھی پیدا ہو گئی کہ میں واقعی لکھ سکتا ہوں۔تھوڑی دیر میں مسعود میاں نے رخصت چاہی اور میں انہیں چھوڑنے کیلئے باہر تک گیا۔ انہیں چھوڑ کر میں واپس اندر آگیا مگر جانتا تھاکہ وہ پانچ منٹ پیدل چلنے کے بعد بس سٹاپ پر پہنچیں گے ،وہاں بہت خوش قسمت ہونے پر دس منٹ میں بس پر سوار ہو جائیں گے اور پھر کوئی آدھ گھنٹے میں دھکے کھاتے اپنی منزل پر پہنچیں گے….اور یہ سب تکلیف انہوں نے صرف اسلئے اٹھائی کہ میں نے اپنی تحریر میں کہیں،کسی جگہ ان کے دل کے تاروں کو چھو لیا تھا۔

یہ ایک عجیب احساس تھا۔میں زندگی بھر لوگوں سے ملا تھا۔معاشرتی ضرورتوں،خون کے رشتوں اور حالات کی کشتی میں ڈولتے ہمسفروں کے تعلق کو بخوبی سمجھنے لگا تھا۔ مگر یہ کچھ اور تھا۔ہماری زندگی کے راستے اتنے جدا تھے کہ کسی دوراہے پر ملنے کا تصور بھی ممکن نہیں تھا مگر پھر بھی ہمارے بیچ ایک تعلق تھا۔جیسے ایک ازلی روح دوسری روح سے بات کرتی ہے۔یہاں زمان و مکاں بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اس سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ میں صرف اپنے لئے لکھتا ہوں مگر اب میرے لکھے ہر لفظ پر ایک چہرے کے تاثرات بدلتے جاتے ہیں۔کوئی جذباتی جملہ لکھ دوں تو مسعود میاں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں،اگر کہانی کسی موڑ پر پھنس جاتی تو وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگتے،کسی بات پر اتنا ہنستے ہیں کہ مجھے لگتا جیسے ابھی محلے والے مجھ سے شور کی شکائت کرنے آ جائیں گے۔اور جب ایسا کچھ ہو رہا ہو تو آپ لاتعلق نہیں رہ سکتے۔کن اکھیوں سے ہی سہی مگر آپ اس چہرے کا ردِ عمل دیکھنے پر مجبور ہوتے ہو۔ تو اگر ایسے میں آپ مجھے یہ کہتا سنیں کہ میں صرف اپنے لئے لکھتا ہوں تو جان لیجئے گا کہ ابھی میری کتابیں بکنا شروع نہیں ہوئیں۔اگر میں ایسا نہ کہوں تو مجھ پر دنیا جہان کی یاسیت حملہ آور ہو جائے گی۔ ”آخر میری کتابیں کیوں نہیں بکتیں؟جب فلاں فلاں خراب کتاب بک سکتی ہے تو یہ کیوں نہیں؟“ میں ایسے بیکار جملے بڑ بڑاتا رہوں گا اور پریشاں گھوموں گا۔ تو کیا بہتر نہیں ہے کہ میں خود کو بھی یقین دلا دوں کہ میں بس اپنے لئے ہی لکھتا ہوں۔اب آپ بھلا اپنے لئے لکھتے ہو تو پھر چھپوانے کی کیا تک؟

بہرحال میں نے آپ کو تو سچ بتا ہی دیا ہے نہ۔ کون کہتا ہے کہ شعورِ ذات کوئی نعمت ہے۔اگر آپ کی روح نے بالیدگی کے مدارج طے نہیں کئے تو اس سے بڑی مصیبت کوئی نہیں۔کیونکہ اسکے بعد خود کو بہلانا ممکن نہیں رہتا اور زندگی میں بہلانے کے سوا ہے ہی کیا۔بچہ روتا ہے اور ماں اسے کھلونے تھما دیتی ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیوں روتا ہے مگر سب جانتے ہیں کہ وہ کھلونے سے بہل سکتا ہے۔ذرا بڑا ہوا اور اداسی اسکے دل پر ڈیرے ڈالتی ہے تو کوئی نہ کوئی حسینہ اسے اپنی مخمور آنکھوں سے بہلا دیتی ہے۔کوئی نوکری،کوئی مرشد،کوئی حادثہ،کوئی موت….سب اسے بہلاتے رہتے ہیں اور جو نہیں بہل سکتے وہ جنگلوں میں نکل جاتے ہیں،صحراﺅں میں گھومتے ہیں اور میں ان لایعنی ویرانوں کی خاک نہیں چھاننا چاہتا تھا۔ تو ایسا کرتے ہیں کہ کوئی بیچ کا راستہ نکال لیتے ہیں جیسے کہ ”میں مسعود میاں کیلئے لکھتا ہوں۔میں نے دیکھا کہ اردو ادب میں معیاری لکھنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں اور مسعود میاں پریشاں پھرتے ہیں تو میں نے سوچا کہ کچھ ایسا لکھوں جو ان کے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کر سکے۔“ یہ یقینا ایک خوبصورت اور دل بہلا دینے والا خیال ہے۔میں اب اپنے آرام دہ کمرے میں بڑے سکون سے لکھ سکتا ہوں(جیسے میں واقعی کوئی اہم کام کر رہا ہوں)۔ تو میں مسعود میاں کیلئے لکھتا ہوں….مسعود میاں میں جنہیں بہت زیادہ نہیں جانتا ہوں مگرجو اس شام میرے گھر آئے تھے اور غالبا ایک گھنٹہ ٹھہرنے کے بعد چلے گئے تھے مگر میرے لئے لکھنے کا مقصد اور لافانی کہانیاں رقم کرنے کی خاصی معقول وجہ چھوڑ گئے۔