لاہور میرے اندر، میرے باہر

یہ تحریر 2232 مرتبہ دیکھی گئی

(2)

سفر ہے شرط: میرا ادبی سفر

شعری و ادبی ذوق اگر میں یہ کہوں کہ میری گھٹی میں شامل ہے تو شاید غلط نہ ہو۔ میرے دادا مولوی ضیاء محمد قیام پاکستان سے قبل اپنے علاقے کے معروف وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ شعری و ادبی ذوق کے مالک تھے اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ میرے والد محترم ابوالفضل عباس وفا تخلص کرتے تھے اور اچھے شاعر تھے تاہم ان کی تمام تر شعری کاوشیں مذہبی شاعری تک محدود تھیں، ان کا اچھا خاصا شعری سرمایا ان کی ڈائریوں میں محفوظ ہے، میرا ارادہ ہے کہ اسے ترتیب دے کر شائع کرواؤں۔ ان کا یہ کلام موقر مذہبی جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے۔ میری والدہ مرحومہ بھی بڑے عمدہ اور پاکیزہ ادبی ذوق کی مالک تھیں، ان کو انیس و دیبر کے طویل مرثیے ازبر تھے جو وہ وقتاً فوقتاً پڑھا کرتی تھیں۔ اپنے بچپنے میں ہی میں انیس و دبیر جیسے بڑے شعرا سے متعارف ہو چکا تھا۔ اس پس منظر میں جب کالج پہنچا تو شاعری کا آغاز ہوا۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج کے ماحول نے اس کو مزید نکھار بخشا، ٹی۔ ایس ایلیٹ نے تو سنجیدہ شاعری کے لیے چالیس سال بعد کی عمر کا تعین کیا ہے لیکن مجھے اس سے بہت پہلے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ میرا میدان نہیں چنانچہ یونیورسٹی سے نکلتے ہی شاعری سے تائب ہو گیا تھا تاہم خدا کا شکر ہے کہ اچھے شعر کی پہچان کا ذوق رکھتا ہوں۔ دورِ جاہلیت کاایک شعر بطورِ نمونہ پیش کرتا ہوں:

اُس طرف تیری حیا نے راز افشا کر دیا

اِس طرف اشکوں نے میرے مجھ کو رسوا کر دیا

غزلیں کچھ اس قسم کی تھیں البتہ نظمیں بہتر کہتا تھا۔ میری نظمیں اور غزلیں کالجز اور یونیورسٹی میگزین کے علاوہ ادب لطیف، تحریریں، تخلیق، جیسے موقر جرائد میں بھی شائع ہوئی ہیں۔ لکھنے لکھانے کا آغاز بچوں کے رسالوں میں کہانیاں لکھنے سے ہوا۔ آٹھ نو سال تک اخبارات کے تعلیمی صفحے پر لکھتا رہا۔ بلکہ چار سال تک تو مسلسل “مشرق” اخبار کے تعلیمی صفحے پر “یونیورسٹی راؤنڈ اپ” کے عنوان سے ہفتہ وار لکھتا رہا ہوں (اس دور میں “جنگ” لاہور سے نہیں نکلا تھا، کوہستان بند ہوچکا تھا اور “مشرق” اس دور کا مقبول ترین اخبار تھا)۔ اسی دور میں ریڈیو پاکستان کے طالب علموں کے پروگرام میں کمپیئرنگ کا موقع بھی ملا۔ اس حوالے سے ادبی محفلوں، حلقہ ارباب ذوق کے جلسوں اور پاک ٹی ہاؤس کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کا موقع ملا، اس دور کے طالب علم ساتھیوں میں حافظ محمد ادریس، جہانگیر بدر، ڈاکٹر سعادت سید، شاہد محمود ندیم، ڈاکٹر اجمل نیازی اور پروفیسر حسن رضوی جیسے معروف نام شامل ہیں جو اپنے اپنے میدان میں نمایاں ترین مقام پر فائز ہیں، اسی دور میں جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، ن۔م راشد، حفیظ جالندھری، سید عابد علی عابد، احسان دانش اور صوفی تبسم جیسے بڑے شعرا کو بہت قریب سے دیکھنے اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کے مواقع بھی ملے۔ اسی طرح اورینٹل کالج میں پروفیسر وزیر الحسن عابدی، مولانا نور الحسن، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر ناظر حسن زیدی، ڈاکٹر عبید اللہ خان، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور ڈاکٹر سہیل احمد خان جیسے اساتذہ کے قریب بیٹھنے کے مواقع ملے۔ میری ایم۔اے کے مقالے کے نگران ڈاکٹر عبادت بریلوی تھے، اس کا موضوع “اردو میں قومی شاعری” تھا، مجھے فخر ہے کہ اس مقالے کے ممتحن صوفی تبسم صاحب تھے۔ بعد میں یہ مقالہ کتابی شکل میں شائع ہوا تو اسے 1978ء کے “داؤد ادبی ایوارڈ” کا حق دار قرار دیا گیا جو اس دور میں ایک ابھرتے ہوئے نوجوان قلم کار کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی ماحول تھا جو تحقیق و تنقید کی طرف میرے رجحان کا بنیادی محرک بنا۔

فطری طور پر مجھے ماضی سے زیادہ لگاؤ ہے۔ آج بھی میں پرانی چیزوں، پرانے دوستوں، پرانی جگہوں اور پرانی یادوں کو زیادہ عزیز رکھتا ہوں۔ جب لکھنا لکھانا شروع کیا تو ماضی  پرستی کے رجحانات نے مجھے اسیر کیے رکھا۔ میرا پہلا باقاعدہ تنقیدی مضمون جو “قومی زبان” میں شائع ہوا میر تقی میر کی ایک ایسی کتاب کا تعارف تھا جو عموماً نظروں سے اوجھل رہی تھی، یعنی “فیضِ میر”۔ اسی طرح اردو کے پہلے سفرنامے “عجائباتِ فرنگ” کا تعارف “قومی زبان” ہی میں 1977ء میں کرایا۔

1991ء میں برسٹل یونیورسٹی “انگلستان” سے نصاب سازی اور نصابی کتب کی تدوین میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔ میری تحقیق کا موضوع “پاکستان اور برطانیہ میں نصابی کتب کی تدوین تھا”۔ میرا یہ مقالہ پاکستان میں سنگ میل پبلی کیشنز نے اُسی سال شائع کیا ہے۔ اپنی تحقیق کے سلسلے میں برطانوی اشاعتی اداروں کے تفصیلی مطالعے کے علاوہ مجھے انگلستان اور فرانس کی یونیورسٹیوں آکسفورڈ، کیمبرج، ریڈنگ، لندن، پیرس کے علاوہ یونیسکو کے اداروں میں جانے اور کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ تعلیم اور نصاب سازی کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت اور اپنے خیالات کے اظہار کے مواقع بھی ملے۔

تصنیفی و تالیفی کام کی تفصیل یہ ہے:

تصانیف:

اردو میں قومی شاعری (داؤد ایوارڈ یافتہ)                                      

1978زندہ رہنما قائداعظم (مرتب)                                                    1979

عجائبات فرنگ (مرتب)                                                             1981

دلی کا یادگار مشاعرہ (مرتب)                                                       1981

انتخاب دیوانِ میر (مرتب)                                                        1983

اسلامی تہذیب اور اردو شاعری                                                   1990

اردو کی زندہ داستانیں                                                                  1999

اعلام  شعر اردو (جامعتہ الازہر)                                                    2001

اعلام نثر اردو (جامعتہ الازہر)                                                      2002

نصاب اردو (جامعتہ الازہر)                                        2003

مقالات مصر (جامعتہ الازہر)                                       2004

مولانا ابوالکلام آزاد کی شاعری                                    2004

اردو کے ایوانوں میں (مقالات)                                  2009

نصابی کتب (شریف مؤلف)

اردو کی چھٹی کتاب (پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ)                  1991

اردو کی ساتویں کتاب (پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ)              1992

اسالیب نثر (پرچہ ایم۔اے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی) 2001

انگریزی

Textbook Development in Pakistan and the United Kinddom                                  1993

The Muslim Community: A Sociological Study, (by Allama Iqbal) Edit.         1984

Kashmir Pst and Present… Seminar Papers (Edit)                                                            2003

Journey to Excellence (1880-2005) (Edit)                                                                      2006

تحقیقی مقالات:

تیس سے زائد قومی اور بین الاقوامی ریسرچ جنرل میں شائع ہو چکے ہیں۔ تحقیق و تنقید کاسلسلہ ابھی بھی جاری ہے تاہم اب توجہ زیادہ تر تعلیمی و تدریسی موضوعات کی جانب ہے۔ تصنیف و تالیف کے حوالے سے یہی موضوعات پیش نظر رہتے ہیں۔ کچھ مسودات اور کتب تیاری کے مراحل میں ہیں۔

السعی منی والاتمام من اللہ

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔