فریموں میں لکھا گیا ناول

یہ تحریر 1965 مرتبہ دیکھی گئی

    ناول طویل نثری بیانیہ ہے جس میں ناول نگارکرداروں اور واقعات کے ذریعے کسی تسلسل سے ایک کہانی کو بیان کرتا ہے۔ فن کی اصناف میں ناول کو زندگی کا صحیح عکاس سمجھا جاتا ہے اسی لیے بعض اوقات یہ زندگی سے بڑا ہوجاتا ہے اور بعض اوقات شعوری کوشش کی جاتی ہے کہ یہ زندگی سے بڑا ہوجائے۔ ”آگ کا دریا“ کے زندگی سے بڑا ہونے میں گوتم نیلمبر ایک رکاوٹ ہے اور ”اُداس نسلیں“ بھی بڑا ہوجاتا اگرessentialsاورtials non essenکے فرق کو سمجھ لیا جاتا اور ”خس وخاشاک زمانے“ کے بعض کرداروں کو زندگی سے بڑا نا دکھایا جاتاتو یہ زندگی سے بڑا ہو سکتا تھا۔ اگر ادبی ”وزن“ کو دیکھا جائے تو ”سیتا ہرن“، ”چائے کے باغ“، ”باگھ“ اور ”بہاؤ“ ضخیم ناولوں سے ”بھاری“ ہیں۔ ہمارے پارکھوں نے خود کو ضخیم ناولوں کے صفحات میں اپنی تمام تر تجزیاتی صلاحیتوں کے ساتھ ایسے دفن کردیا ہے کہ کم ضخامت والے ناول اُن کے نزدیک اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں اوریا وہ خائف ہیں کہ ایسا کرنے سے اُن کا مقام خطرے میں پڑ جائے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ اِن ناولوں کو جدید ادبی منظر نامے میں ری وزٹ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ”ایک چادر میلی سی“ اور ”لندن کی ایک رات“ کم ضخامت کے ہونے کے باوجود اگر زندگی سے بڑے نہیں تو زندگی کو مس ضرور کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اُردو ضخیم ناولوں کی متحمل نہیں ہوسکتی؟ یا ہمارے ناول نگاروں کے پاس زندگی کا اتنا تجربہ نہیں کہ وہ ضخیم ناول کو ضروری توازن بہم پہنچا سکیں؟ اور یا پھر ہمارا معاشرہ ناول نگار کوایسا پلیٹ فارم مہیا نہیں کر پا رہا جو ضخیم ناول کو زندگی کا عکاس بناسکے؟

   مستنصر حسین تار ڑ بسیار نویس ہے اور بسیار نویس ہونا ایک ادبی صفت ہے، دراصل بسیار نویسی ہی ایک لکھاری کی تخلیقی قوت کی نشان دہی کرتی ہے۔ زندگی میں ایک ناول یا افسانوں کا ایک مجموعہ تحریر کردینا دراصل مصنف کے فکری دیوالیہ پن کو ظاہر کرتاہے؛ ایسے مصنف جتنی بھی معرکہ آرا تخلیق کر جائیں وہ بسیار نویسوں کے تخلیقی وفور کے آگے بہہ جاتے ہیں۔  ”اے غزال ِشب“ تارڑ کی تخلیقات میں تازہ ترین اضافہ ہے جس کا آغاز ایک فینٹسی لگتا ہے۔ جدید حقیقت نگاری میں اسرار، فینٹسی اور ہولوسی نیشن؛ فکشن کااہم جزو ہو گئے ہیں اور اگر ایسا نا ہواہوتا توفن پارہ ایک خبر کی سطح سے بلند ناہوپاتا۔ علامت نگاری کو جدید فکشن کے اِن تین اجزا کے ساتھ زیرِ بحث لانا علامت کی اہمیت کو کم کرنا ہے کیوں کہ فکشن پارہ اسرار،فینٹسی یا ہولوسی نیشن کے بغیر تو مکمل ہوسکتا ہے، علامت کے بغیر نہیں۔ ”اے غزالِ شب“ میں پاکستان کے چندنظریاتی نوجوان اپنے آدرشوں کے تعاقب میں روس، ہنگری اور مشرقی جرمنی میں مستقل سکونت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ بظاہر ایک فینٹسی ہی لگے گا کیوں کہ ایسا کم کم ہوتا ہے کہ کوئی معاشی مفادات کو ترک یا نظر انداز کرکے اپنی زندگی کوآدرشوں کے حصول کے لیے وقف کردے۔ وہ لوگ اُن ممالک میں پچھلی صدی کی پچاسواور ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں گئے تھے۔ سمرسٹ موہم نے دنیا کے اُن تمام ممالک کو اپنی کہانیوں کالوکیل بنایا جہاں جہاں وہ گیا، خواہ ملایا ہو یاکوئی اور دوردراز کا خطہ؛ وہ یہ بھی دعویٰ کرتا تھا کہ کوئی ایسا شخص یا علاقہ نہیں جس سے اُس کی شناسائی ہے اور اُس نے اُس کے متعلق نہیں لکھا۔ ”دنیانوردی“ یقینا تخلیقی اہلیت کونکھار دے کر تجربے کی وسعت اور علم کی گہرائی پر منتج ہوتی ہے اور تارڑ نے اپنی سیاحی کو اپنے فکشن میں ایسے سمویا ہے کہ اُس کے سفر نامے میں سے فکشن کو یا فکشن میں سے سفر نامے کو الگ کرنا ممکن نہیں۔ ”اے غزالِ شب“میں تارڑ جہاں سویت یونین کے بعد کے روس اور مشرقی یورپ کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی منظرنامے کو قاری کے سامنے رکھ رہا ہے اور اُن کے اندرکرداراپنی پیچیدہ زندگیاں کر رہے ہیں وہاں اُن کے گردوپیش سے کبھی بے خبر نہیں ہوا اور قاری کو وہ تمام مقامات دکھارہا ہے جہاں کہانی کھل رہی ہے۔ یہ نوجوان جب اُن ممالک میں گئے تو سوویت روس ایسے دور میں سے گزر رہا تھا جس میں اُس کے قائدین نے غیر دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی بنیادوں کو معاشی طاقت سے مضبوط کرنے کے بجائے وسعت پسندی سے آغاز میں ہی کھوکھلا کرنا شروع کردیاجو اختتام کا آغازتھا۔ یہ نوجوان اپنے نظریے کے مسمار ہونے سے زیادہ سویت روس کے ناکام ہونے سے مایوس ہوئے۔ سویت روس کے ٹکڑے ہونا اُن کے نظریے کی شکست تھی جو اُنھیں بار بار شک میں مبتلا کردیتا کہ کیا وہ اپنے آدرش کے انتخاب میں غلط تو نہیں تھے؟ اور ایسے موقعوں پر جیسے ہوتا ہے، ویسے ہی ہوتا: وہ اپنے شہروں کو یاد کرتے ہوئے وہاں جانے کا سوچنے لگتے۔

   اے حمید ہر نئے فکشن نگار کوایک وقت تک اپنی گرفت میں لیتے ہیں۔ اُنھوں نے سیاحی کو اپنے فکشن کا حصہ بناکر اُس وقت کے فکشن کو نئی وسعت اور گہرائی دی۔ وہ سیلون (سری لنکا) اور برما جاچکے تھے، اُنھوں نے اپنی اِس سیاحت کو اپنے فکشن میں گوندھ کر بعد میں آنے والوں کے لیے ایک نئی راہ روشن کی۔ دوسرااُنھوں نے لاہورکے گلی کوچوں اور باغوں کواپنے فکشن کاموضوع بنایا۔ بعض اوقات لوکیل کو اتنا اہم نہیں سمجھاجاتا، ”بستی“ ایک مثال ہے،  ”غدار“ اور ”ایک چادر میلی سی“ کا لوکیل سیال کوٹ کا گردونواح ہے اور یا پھر بلونت سنگھ نے لالہ موسیٰ اور پبی کی پہاڑیوں کے درمیان میں اپنے کرداروں کے ذریعے گہرے نقوش چھوڑے۔ لاہور شروع سے ثقافتی اور تہذیبی مرکز تھااور اِس کا فکشن پر اثر انداز ہونا لازمی تھا لیکن اے حمید تنگ و تاریک گلیوں میں قاری کی انگلی تھامے ایسے لاہور کا نظارہ کرواتے رہے جس نے وقت کے ہاتھوں مار کھاجانا تھی اورتارڑ نے اِنھیں گلیوں کواپنے کرداروں کے ذریعے زندہ کردیاجب وہ سُرخ شیشوں والے گھر میں رہے جہاں رات کو موم بتیاں جلتی تھیں اور دن کو شیشوں میں سے سُرخ رنگ چھلکتا تھا جوکائنات کا رنگ ہے۔ لوکیل فکشن کی اثر انگیزی میں ایک اہم عنصر ہوتا ہے۔ فکشن نگار جب کسی خیالی لوکیل پر اپنی کہانی تعمیر کرتا ہے تو اُس نے کسی مصلحت کے تحت اصل لوکیل پر خیالی لوکیل کو مسلط کیا ہوتا ہے۔ سٹیفن کرین نے فرضی لوکیل تعمیر کرکے the red badge of courage  لکھا جو ایک فرضی کہانی ہونے کے باوجود حقیقی تھی۔ تارڑ لوکیل کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ ”خس و خاشاک زمانے“ میں اُس نے اپنے لوکیل کو بھی ایک طرح سے کردار بنا دیا ہے اور شرقی و غربی گکھڑ اورارد گرد کے دیہات ناول کے پُرتا ثیرہونے میں اتنے ہی اہم ہیں جتنا کہ کہانی بذات ِخود، ایسے ہی  ”غدار“ میں قلعہ سوبھا سنگھ کے پاس چھوٹا سا لالہ نام کاایک گاؤں کہانی کا کردار ہے۔ ”اے غزال ِ شب“میں تارڑ نے اپنے لوکیلوں کو بہت اہمیت دی ہے۔ اُس نے اُنھیں اپنی آنکھ سے دیکھتے ہوئے قاری تک پہنچانے کے ساتھ شفیق الرحمن کی آنکھ کی بینائی سے بھی کام لیا ہے جس نے بیانیہ عمل میں جمالیاتی قدر کا اضافہ کیا ہے۔ وہ شفیق الرحمن کا ذکر ایک گداز اورکسک کے ساتھ کرتا ہے۔ ریڈسکوئیر، کریملن، برچ کے درخت، ڈینیوب، دیوارِ برلن، فصیل کے اندر کا لاہور، سُرخ رنگ کے شیشے والا کمرہ جہاں موم بتیاں جلتی تھیں، دریائے راوی، کوارٹر جہاں سانپ شہتیر کے اندررہتا تھا (یہ الگ بات کہ پاؤں نا ہونے کی وجہ سے سانپ دیوارپر رینگ کے چڑھ نہیں سکتا) اور چوہا، بورے والا میں کنواں اور اکوں کی مائی بوڑھیاں، شوٹالے کے کھیت اور فردوس مارکیٹ کے پیچھے غریب کالونی نے کہانی کے تاثر اور کرداروں کی تازگی اور نئے پن کو برقرار رکھا ہے۔ ”بستی“ کے کردار کسی بھی لوکیل میں اُتنے غیر موثر ہوتے جتنے کہ ہیں لیکن ”اے غزال ِشب“ کے کرداروں کواِس کہانی سے نکال کر کسی اور لوکیل کا حصہ بنانے کی کوشش کی جائے تو وہ بے رنگ ہوکے رہ جائیں گے کیوں کہ اُنھوں نے آفاقیت ہونے کے ساتھ ناول میں اپنی ذمے داری نبھانی ہے، وہ  original  ہیں اُنھیں مصلحت کے تحت تعمیر نہیں کیا گیا۔ اے حمید کی طرح تارڑ کو اپنے لوکیل پر عبور ہوتا ہے۔ اُسے مکان اور مکینوں کے رشتے کا علم ہے اور وہ دونوں کو ایک دوسرے کا حصہ بناکے رکھتا ہے۔ ایک طویل عرصہ اپنے ملک سے باہر رہنے والے لوگ اپنے نئے ملک کا حصہ بن جاتے ہیں کیوں کہ نیا ملک اُن کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے والی کان ہوتی ہے۔  ”اے غزال ِ شب“ کے کردار سویت روس کی ناکامی کے بعداُن ممالک کا حصہ نہیں رہے تھے لیکن اُن کے خواب اُنھیں اُن ملکوں کے ساتھ جوڑے ہوئے تھے۔ خواب انسان کو زندہ رکھتے ہیں، ایک ٹوٹتا ہے تو نیا بن جاتا ہے۔ اِن لوگوں نے اپنی زندگیاں تو وہاں بنا لی تھیں لیکن وہ اپنے اندر سے، خاص کر سویت روس کے ٹوٹنے کے بعد، آبائی شہروں کو اپنے اندر زندہ پا رہے تھے اور وہ اُس عمرکوپہنچ چکے تھے جہاں ایک باراپنے کوچے اور بازار دیکھنے کو دل کرتا ہے۔

 فکشن کے تین اہم اور بنیادی جزو ہیں: پہلا لوکیل، دوسرا کردار اور تیسراکہانی؛ اِن کی ترتیب کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ کئی فکشن نگار کرداروں کے ذریعے کہانی چلاتے ہیں، کردار کہانی کا حصہ ہونے کے بجائے کہانی اپنے اندر لیے ہوتے ہیں؛ کہانی دراصل مفعول ہوکر کرداروں کی تابع ہوجاتی ہے۔ جہاں کردار کہانی کا حصہ ہوتے ہیں وہاں فکشن نگار قدرے سہولت میں ہوتا ہے اور کہانی کوکھولتے ہوئے اُس پر کردار اپنی پابندی عائد نہیں کرتے کہ وہ کہانی کے پابند ہوتے ہیں۔ اِن دونوں حالتوں میں لوکیل کی اہمیت ایک مستقل factorہے۔ ”اے غزال ِشب“ کرداروں کی کہانی ہے جو کہانی کو اپنی مرضی کے مطابق کھولتے ہیں؛ وہ تارڑ کے تابع نہیں۔ اگر وہ تارڑ کے تابع ہوتے تو وہ تارڑ کی کہانی میں ہوتے، نا کہ کہانی اُن سے ہوتی۔ ”اے غزال ِشب“ میں اگر دیکھا جائے تو کوئی کہانی نہیں اور اگر کرداروں کی محرومی، اکلاپے، تنہائی، اُداسی، مایوسی اور idiosyncracies  کامطالعہ کیا جائے تو وہ ازل سے جاری اُس کہانی کولیے آگے چل رہے ہوتے ہیں جوانسانی زندگی کے نظریوں پر مبنی ہوتی ہے۔ انسان کبھی نظریے کے بغیر زندگی نہیں کر سکتا۔ اُسے اِس کائنات میں اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے ایک نظریے کی ضرورت ہوتی ہے؛ یا اگر یہ کہاجائے کہ اُسے نظریے کی نفسیاتی بھوک ہے تو غلط نا ہو گا۔ ناول کے کردار نظریاتی لوگ ہیں اور سویت روس کے ٹوٹنے کے بعد اُن کی زندگی شوٹالے کے اُس کھیت کی طرح ہوجاتی ہے جو پھول آنے سے پہلے پانی کے بغیر سوکھ جائے۔ اُنھوں نے اپنی زندگی ایک نظریے کے تعاقب میں گزاری تھی اور اب زندہ رہنے کے لیے اُنھیں نظریہ ہی چاہیے چناں چہ وہ طالبان کا ساتھ دینے کا سوچتے ہیں۔ اِس سے پہلے اُن کی زندگی کا نظریہ دائیں بازو کو ختم کرنا ہوتا ہے اور وہ جنھیں نظریے کی بالادستی پر یقین تھا، اب کسی نظریے کے بھوکے تھے! یہ تارڑ کا انسان کی نظریاتی بھوک کی طرف ایک اشارہ ہے اورنظریہ نا رکھنے والے گنتی کے چند لوگوں پر طنز بھی ہے۔ ”اے غزال ِشب“ میں کہانی کرداروں کے اندر کسی گہرائی میں چھپی ہوئی ہے، وہ سمندر میں زیر ِآب چلنے والی روؤں کی طرح ہیں جو نظر آئے بغیر سمندروں کو ملاتی ہیں۔ اُن روؤں کی طرح کہانی اوپر سے ساکن نظر آتی ہے اور قاری کرداروں کی فکری تشنگی کے بارے میں پڑھے جا رہا ہے جب کہ کنہ میں ایک بھونچال برپا ہوتا ہے۔ کردار اتنے شکست خوردہ ہوتے ہیں یا شکست کے اتنے عادی ہو گئے ہوتے ہیں کہ خود کوبھی شکست دینا چاہتے ہیں، وہ قطعاً اپنی بربادی نہیں چاہتے لیکن اِس شکست میں امیر ہوکے وہ سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ یہ تارڑ کے تخلیقی جوہر کی انتہا ہے۔ یہ ایک پھیلی ہوئی اورگنجل دار کہانی ہے جو مرحلہ وار چلی ہے اور جس کے ہر مرحلے میں تارڑ نے قاری کو اپنے کرداروں کے حوالے سے کہانی کو کوئی موڑ دیے بغیر دل چسپ اور معنی خیز رکھا ہے۔ سوائے ہندوستانی کروڑ پتی کے کوئی کردار بیگانہ، اجنبی یاکہانی سے باہر نہیں لگتا۔ عموماً کردار مصنف کے ’ماؤتھ پیس‘ ہوتے ہیں جو اُن کیeffectiveness   پر بُری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ ایسا ”آخر ِ شب کے ہم سفر“ میں محسوس کیا جاسکتا ہے جب کہ ”راکھ“ کا زاہد کالیا اورارشد وحیدکے’’گمان“ کا کبیر اپنے فیصلے خود کرتے ہیں اور اِسی وجہ سے دونوں اپنی کہانیوں کی کامیابی کا سبب بنے؛ غالباً زاہد کالیا اُردو فکشن کا ہمیشہ زندہ رہنے والا کردار ہے۔

عزیز احمد کے ہاں ”آگ“ کے علاوہ حیدر آباد (دکن) کی تہذیب کو ہی کسی نا کسی طرح موضوع بنایا گیا ہے، قرۃالعین حیدر نے وسط ہند کی پرانی اور نئی وجود پانے والی معاشرتی حد بندیوں پر اپنے ناول تخلیق کیے ہیں، کشمیرکرشن چندر کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اوربلونت سنگھ نے پنجاب کے اُن لوگوں کے بارے میں لکھا ہے جو اخروٹ کی طرح اندر سے نرم نہیں ہوتے۔ ہر فکشن نگار کا اپنا ایک میدان ہوتا ہے جس میں کھیلتے ہوئے وہ اپنے آپ کوپُر اعتماد سمجھتا ہے یا اُسے با اعتماد رہنے کے لیے ایک شناساماحول کی ضرورت ہوتی ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فکشن ہمیشہ شناسا ماحول کے اندر رہتے ہوئے ہی لکھنا چاہیے کیوں کہ اِس سے غلطی کے امکان کم ہوجاتے ہیں اور یا پھرایسا فکشن پارہ حقیقت کے قریب تر ہوتا ہے۔ ناشناسا ماحول میں لکھا جانے والا فکشن، فکشن نگار کو جگہ بدلتی ہوئی ریت کے بیچ میں لا کھڑا کرتا ہے۔ ناول نگار کا قلم اُس کا لینز ہوتا ہے جو ہر تصویر کو نیا زاویہ دیتا ہے۔ ’دھنی بخش کے بیٹے“ میں اندرون سندھ کا ماحول نامکمل ہونے یا ایک تشنگی کا احساس دلاتا ہے جب کہ ”انسان، اے انسان“ کے ایک مختلف ماحول میں تشنگی، تکمیل میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ناآشنا ماحول کا فن پارہ اُس فرضی قصے کی طرح ہوتا ہے جسے داستان گو سوچے بغیر بیان کیے جاتا ہے اور جو سامع پر جلد ہی بوجھ بننا شروع ہوجاتا ہے کیوں کہ وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔ ایک محدودشناسا ماحول کے اندر رہتے ہوئے لکھنا فکشن نگا ر کا ضعف ہے۔ فکشن نگار تو کاک پٹ میں بیٹھے اُس پائلٹ کی طرح ہوتا ہے جس کی نظرسامنے میل ہا میل پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔ تارڑ بھی اُس پائلٹ کی طرح ہے جس کی نظر میلوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ”اے غزال ِ شب“ کا کینوس وسیع ہے اور وسیع کینوس پر تصویر بناتے ہوئے کچھ حصے ایسے بھی ہوتے ہیں جو توجہ طلب رہ جاتے ہیں یا ہر حصے کو ایک ہی جتنی اہمیت دینا ممکن نہیں ہوتا اور یا پھر مصوراپنے ہی کینوس کی وسعت سے خائف ہوکر ترجیحات پر کام کرتا ہے، تارڑ نے اپنے وسیع کینوس پر ہر تصویر اور رنگ واضح رکھا ہے۔ یہ ناول بیک وقت دو براعظموں پر پھیلا ہوا ہے لیکن اِس کے ساتھ وہ ایک بین الاقوامی سرد جنگ کو سامنے لارہا ہے جس میں اُس کے کردار نادانستہ طور پر، اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے اُس جنگ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ جنگ سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان لڑی جارہی ہے جس میں اشتراکیت کے سپاہی بددل ہوکر سرمایہ دار بن جاتے ہیں لیکن اُن کے اندر کا اشتراکی ابھی تک زندہ ہے۔ وہ دولت کے انباروں پر اُس مرغ کی طرح اکڑ کر کھڑے جائزہ لے رہے ہیں جو ایک روہڑی کا بلا شرکتِ غیرے مالک ہو۔ اِس کہانی کو متعدد لوگ اپنے کاندھوں پر اُٹھائے ہوئے ہیں جن میں ایک جسموں کا کاروبار کرنے والاپاکستانی مکار دلال ہے جس کی برآمد کی ہوئی جنس پاکستان آ کر ایک پاکستانی انقلابی کی اُس جوانی کا سواگت کرتی ہے جسے وہ بوڑھا ہونے کے بعد وقت کے ماسکو کی برفوں میں کہیں دفن کر آیا تھا۔ کہانی کے اِن کرداروں میں کے جی بی کے بدنام ِزمانہ آئی ون دی ٹیریبل کا لاہور سے آنے والا، ایک انقلابی شاعر کا بیٹاہے جو اُس کاداماد بننے کے بعد اُس کے پلاسٹک کے پاخانوں کا نگران بن جاتا ہے۔ اِن لوگوں نے وہاں مقامی عورتوں سے شادیاں کر لی ہیں اور اُن کے بچے بھی ہیں اور روس میں رہنے والے ایک طرح سے ناآسودہ ازدواجی زندگیاں گزار رہے ہیں کہ ماسکوکی عورتیں اور وہاں پیدا ہونے والے بچے اپنے خاوندوں اور باپوں کی  idiocyncries  سے ناوقف تھے۔ وہ جب پاکستان آتے ہیں تو بیویوں اور بچوں کو اُن کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ تارڑ جدید فکشن کے تقاضے سمجھتا ہے اورکئی ہم عصروں کی طرح جذبات نگاری اُس کا forteنہیں ہے۔ جذبات نگاری دراصل ایک فن پارے کوعام مقبولیت کی سطح پر لے آتی ہے جو اُس کی موت کا آغاز ہوتا ہے۔ ”اے غزال ِشب“ کا ماحول بوجھل، گھٹا گھٹا اور اُداس ہے۔ یہ لوگ اپنی شناخت کو پہچاننے اور قائم رکھنے کی جنگ میں مبتلا ہیں۔ وہاں اُن کے بیوی بچے ہیں جو زندگی کا ایک اہم حصہ اُن کے ساتھ گزارنے کے باوجود اُنھیں اپنا نہیں سکے اور جب یہ پاکستان آتے ہیں تواُنھیں اِن کی کمی اور اہمیت کا احساس ہوتا ہے؛ یہ ایک ایسا انسانی جذبہ ہے جس کا تجربہ اِس عمل میں سے گزر کر ہی کیا جاسکتا ہے اور فکشن نگار ایسی تمام کیفیات اپنے اوپر طاری کرکے لکھتا ہے۔ جب یہ لوگ پاکستان میں اپنے ماضی کو کھوج کر اُس میں عارضی طور پر چند سانس لینا چاہتے تھے، وہاں وہ لوگ اُن کی محبت میں بے چین اُنھیں اپنے سے کبھی جدا نا کرنے کا سوچ رہے تھے۔ تارڑ نے یہ پھسلن والی کیفیت کمال ہنروری سے نبھائی ہے۔ عارف نقوی اِس ہنر وری کی ایک اور مثال ہے جو اپنی اداکاری سے آڈیشن لینے والوں کو دھوکہ دینے کی اداکاری میں اپنے ساتھ بھی اُس وقت تک اداکاری کرتا جاتا ہے جب تک اپنی آخری سانس نہیں لے لیتا؛ یہ بھی شاید ایک اداکاری ہی تھی اور عین ممکن ہے وہ اب بھی زندہ ہو۔ ”اے غزال ِشب“ میں تارڑ نے فلیش بیک کو جدید طریقے سے استعمال کیا ہے؛ ایک کردار خود بخود کہیں راوی اورکہیں صیغہ غائب بن جاتا ہے۔ یہ تکنیک نئی تو نہیں، اِسے وکی کولننز انیسویں صدی میں woman in white  میں برت چکا ہے لیکن تارڑ نے اپنے ناول کوdirectاور  in direct تکنیک سے بھی کھولاہے۔ کیتھرائن روس میں شبنم والے کھیتوں کی ٹھنڈک سے اپنے بدن میں آگ بھڑکاتی ہوئی، سرجی کو سیرا ب نا کرسکی تھی لیکن بورے والے کے گردو نواح میں ظہیرکی، اپنے باپ کے ایک انقلابی دوست کے بیٹے کے ساتھ جو انقلاب کے نعروں کے بیچ میں کہیں جاگیردار بن گیا تھا، ملاقات کپاس کی گانٹھوں کے پاس پڑی چارپائی پر اُسی کیتھرائن سے ہوتی ہے جو سرجی کو سیراب نا کرسکی تھی اور جسے پاکستانی دلال نے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی خدمت کے لیے روس سے برآمد کیا تھا۔ فکشن کے ایسے اتفاقات اُس کے مقبولِ عام ہونے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، بشرطیکہ فکشن نگار اِن اتفاقات کو جتنا قدرتی بنانا ممکن ہو بناسکے! کیتھرائن، سرجی اور ظہیر، تارڑ کی اُس تکون کا حصہ ہیں جو بظاہر ایک اتفاق نظر آتی ہے لیکن یہ ایک ایسی قوم کا المیہ ہے جو چند برس پہلے شطرنج کے عالمی کھیل میں اپنی چالیں خود طے کرتی تھی جب کہ اب اپنی عورتوں کو برآمد کرنے پر مجبور ہے۔

فلم اور فکشن ایک دوسرے سے الگ نہیں کیے جاسکتے، دونوں کا بنیادی مقصد کہانی بیان کرنا ہوتا ہے، صرف ذریعے کا فرق ہے۔ فلم کیمرے اور فکشن قلم کے ذریعے اپنی کہانی بیان کرتا ہے۔ راج کپور پچھلی صدی کا ایک اہم فلم ساز اور ہدایت کار ہوا ہے۔ اُس نے اپنے کیرئیر کے آخری حصے کی فلموں میں کہانیوں کو فریموں کے ذریعے پیش کیا۔ بڑے بڑے فریم تھے جن میں کہانی بظاہر ٹھہری ہوئی لیکن متحرک ہوتی تھی۔ چناں چہ ایک فریم سے دوسرے فریم کے درمیان میں کہانی ساکن ہوتی تھی اور پھرنئے فریم کے اندر حرکت میں آجاتی تھی۔ اِس تکنیک کی کامیابی صرف ایڈیٹنگ پر ہے اور بعض اوقات راج کپور کی ایڈیٹنگ کمزور ہوتی تھی جو فلم کے مجموعی تاثر پر اثر انداز ہوتی۔ ”اے غزال ِ شب“ فریموں کے اندر لکھا گیا ناول ہے۔ راج کپور نے ”میرا نام جوکر“ کے فریموں کو زندگی سے بڑا بنانے کی کوشش کی لیکن تارڑ نے اپنے فریموں کا سائز اُتنا ہی رکھا جتنا اُس وقت کہانی کی ضرورت تھی۔ ظہیر اگر اکوں کی مائی بوڑھیوں کے پیچھے بھاگتا ہے تو یہ ایک ایسے فریم کے اندر ہو رہا ہے جس میں حال کے ساتھ ساتھ فلیش بیک بھی ہے اور جہاں یہ فریم اپنے آپ کو گھسیٹنے کی کیفیت میں آنے لگتا ہے، تارڑ نیا فریم کھول دیتا ہے۔ ”اے غزال ِشب“ کی کہانی بیرونی اتفاقات کے بجائے فریموں کے اندر چلتی ہے۔ ایک فریم کے اندر رہتے ہوئے تارڑ کی ہنروری شک کے سائے تلے آتے محسوس ہوتی ہے تو دوسرے فریم میں جاتے ہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ شک نہیں، اُس وقت کہانی کی ڈیویلپ منٹ کا حصہ تھا۔ کہانی کا آخری فریم جہاں عارف نقوی اپنا آڈیشن دیتا ہے ایک مقام پر کمزور ایڈیٹنگ کا شکار ہونے لگتا ہے لیکن فریم کے اندر کہانی آہستہ آہستہ، اپنے انجام کی طرف تیزی سے جا رہی ہوتی ہے، جو بادی النظر میں، رینگتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ ایک اور مثال بورے والا کے ایک جاگیر دار کے فارم کی ہے جہاں دو روسی لڑکیاں لائی جاتی ہیں جن کو بھیجنے والا ایک مکروہ صورت والا پاکستانی دلال ہے جو پہلے کسی فریم میں متعارف ہوا تھا اور پھر ساکت ہوگیا۔ اِس فریم میں وہ in directly  کیتھرائن کے ذریعے متحرک ہوتا ہے جوشوٹالے کے شبنم سے بھرے کھیتوں کی ٹھنڈک سے اپنے بدن کو آگ بداماں کرتی ہے اور اِسی آگ کی بدولت ظہیر کے بوڑھے اور ڈھیلے جسم میں آہستہ آہستہ اپنی آگ داخل کر دیتی ہے۔             ”اے غزال ِ شب“ میں ڈینیوب کی روانی ہے۔ ڈینیوب کا بہاؤ کسی طغیانی کے بغیرمسلسل ہے لیکن ناول میں کئی طغیانیاں ہیں جو قاری کو اپنے ساتھ بہائے پھرتی ہیں۔ ڈینیوب کے کنارے سے آنے والی نیم پاکستانی اور نیم خانہ بدوش لڑکی جو لاہور میں اپنے باپ کے گھر کی تلاش میں آتی ہے، اُس کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک کوئی نئی بات تو نہیں لیکن تارڑ نے اُسے کسی بھی وقت اخلاقیات کی نذر کرتے ہوئے مصلح بننے کی کوشش نہیں کی؛ جہاں بھی فکشن نگار اپنے اندر ایک اصلاحی پہلو لے آئے، بطور فکشن نگار اُس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ تارڑ ایک بیباک حقیقت نگار ہے جس کے ہاں انسانی رشتوں کی ایک کبھی ختم نا ہونے والی زنجیر ملتی ہے جو سرحدوں کی پابند نہیں۔ پچھلے پچاس سالوں میں بین الاقوامی فکشن ایک لمبی جست لگا کر ایسے علاقوں میں داخل ہوگیا ہے جس میں ہمارے نقادوں نے اپنے فکشن نگاروں کے داخلے کو نا ممکن بنادیا ہے جو فکشن کے اگلی سمت کے سفر میں ایک رکاوٹ ہے۔ اگر اُردو ناول کوزندہ رکھنا ہے تو ناول نگاروں اور نقادوں کو جدید ناول کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا!