فرانز کافکا (Franz Kafka)

یہ تحریر 3751 مرتبہ دیکھی گئی

بعض انسانوں کی زندگی کا المیہ ان کی پیدائش ہی سے شروع ہو جاتا ہے اور زندگی بھر بدنصیبیاں ان کا تعاقب کرتی رہتی ہیں۔ اس حرماں نصیبی کے حیاتیاتی، خاندانی، معاشرتی اور دیگر کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ بہرحال فرد کی زندگی اس شکنجے میں جکڑی ہوئی گزرتی ہے۔ جرمن زبان کے مشہور ادیب ‘کافکا’ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

جہاں تک ‘کافکا’ کا معاملہ ہے کافکا بدنصیبی کے حوالے سے اسم بامسمٰی ہے۔ کافکا جولائی 1883ء کو چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں پیدا ہوا۔ عبرانی جو اس کی آبائی زبان تھی اس میں کافکا کا نام “امسخل” رکھا گیا لیکن ساتھ ہی اسے فرانز بھی پکارا جانے لگا اور یہی اس کانام ٹھہرا۔ کافکا کا جہاں تک اسمِ بامسمٰی ہونے کا تعلق ہے تو چیک زبان میں کوّے کو “کافکا” کہا جاتا ہے جیسے ہندی میں اس کے لیے “کاگا” کی تبدیل شدہ حالت ہوں یعنی میرے نام کا مطلب کوّا ہے، جو نحوست، بدنصیبی اور شر کی علامت ہے۔

کافکا مزاج کے اعتبار سے شروع سے ہی متلون مزاج تھا۔ اپنے باپ اور دادا کے برعکس یہ پیدائشی طور پر کمزور تھا اور ایک بات اس کے لاشعور میں سما گئی تھی کہ اس کی ماں جوئی اور باپ ہرمن اس سے کچھ زیادہ محبت نہیں کرتے۔

خود پر جبر کرکے کافکا نے باپ کے کہنے پر قانون کی تعلیم حاصل کی اور ایک انشورنس کمپنی میں کام کیا اور قانون کی پریکٹس بھی کی۔ بعد میں باپ کے کاروبار کے لیے بلوایا گیا مگر یہ سب کچھ اس کے ساتھ ایک طرح کا ظلم تھا۔ جس کے سبب ایک مرتبہ کافکا نے خودکشی کی کوشش بھی کی مگر اس کے دوست میکس براڈ نے جو بعد میں اس کا مستند سوانح نگار بھی بنا، نے اسے سنبھال لیا۔ کافکا نے میکس براڈ کے ساتھ مل کر یہودیوں کی صیہونی تحریک کے لیے کام بھی کیا جہاں اسے ‘ڈورا’ سے محبت ہوئی جو شادی تک نہ پہنچ سکی اور کافکا نے تین جون 1924ء کو تپ دق کی تاب نہ لاتے ہوئے ویانا کے سینی ٹورنیم میں وفات پائی۔ کافکا کی افسانوی اقلیم میں داخل ہونے سے پہلے اس کے کرداروں کے پسِ پردہ محرکات کا جاننات ضروری ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں رائج اقدار  پٌر ایک دم ضرب پڑی اور وہ گھاؤ اتنا گہرا تھا جس نے یوروپی معاشرت کو اچانک جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ جی ہاں پہلی جنگ عظیم، جو فرانس ،جرمنی ، روس اور برطانیہ جیسے مہذب ممالک کے درمیان لڑی گئی۔ اقدار کے اچانک انہدام اور نئی اقدار کی تشکیل کے درمیانی وقفے میں کافکا کی تحریروں کو رکھا جائے تو ابلاغ ممکن ہو سکتا ہے۔

کافکا، جس نے اپنے دوست میکس براڈ کو اپنی تمام تحریریں جلا دینے کے لیے کہا تھا۔ اس نے یہ بات نہ مانی اور کافکا کی موت کے بعد کافکا کے تین ناول ٹرائل 2، قلعہ 3، امریکہ چھپوا دیے۔

یہاں ہم فتویٰ، تبدیلی قالب، ٹرائل اور قلعہ تک اپنے تعارف کو محدود رکھیں گے کیوں کہ کافکا کے اقوال (روز نامچوں) کا کلی تعارف ممکن نہیں۔ کافکا کاناولٹ تبدلی قالب اس کے کام کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس میں بیٹا بستر سے بیدار ہونے کے بعد اپنے تبدیل شدہ قالب کیڑے کی شکل میں دکھایا گیا ہے، جو کچھ دیر بعد مر جاتا ہے۔ اس کی بہت سی تعبیرات کی گئی ہیں۔ اس میں ایک طرف تو اس کی گھر والوں کی عدم توجہی اور دوسری طرف جرم مایوسی کو وجہ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

کافکا کے افسانے فتویٰ کو دیکھا جائے تو وہ کافکا کی زندگی کی عملی تصویر نظر آتا ہے جس میں ایک مسکین لڑکے کو دکھایا گیا ہے جو اپنے والدین سے بے پناہ محبت کرتا ہے لیکن مثبت رویہ نہ پاتے ہوئے خودکشی کر لیتا ہے اور پانی میں چھلانگ لگاتے وقت یہ کہتا ہے کہ امی ابو میں آپ سے بہت پیار کرتا تھا۔ ٹرائل میں مستر ‘کے’ جو بینک کلرک ہے اس پر بلاوجہ پولیس کڑی نظر رکھتی ہے اور وہ یہ نہیں جان پاتا کہ اس کا جرم کیا ہے۔ استفسار پر پولیس اسے عدالت سے رجوع کرنے کو کہتی ہے جہاں وہ ابتری کے سوا کچھ نہیں دیکھتا۔

“قلعہ” میں خزاں زدہ موسم دکھایا گیا جہاں وقت رُکا ہوا ہے۔ “کے” قلعے کے سرویئر کے طور پر وہاں آتا ہے مگر اسے سروے نہیں کرنے دیا جاتا۔ جس کی وجوہات ناول کے تفصیلی مطالعے سے سامنے آ سکتی ہیں۔ ایک گھٹن زدہ ماحول کی پیشکش جس میں کچھ بھی کرنا ممکن نہیں۔ کافکا کے کام کو مارٹن بیوبر نے وجودی فلسفے کے تحت سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ کافکا کے مصائب و آلام کو کرکیگارڈ کے اس بیان کی روشنی میں دیکھا جائے کہ مصیبتیں انسان کا تزکیہ نفس کرتی ہیں تو کافکا ایک پارس روح کی طرح لگتا ہے۔ کافکا  دوَستوفسکی کا بہت قائل تھا۔ بالزاک کے بارے میں اپنے دوست میکس براڈ سے کہتا تھا کہ بالزاک کا خیال ہے کہ وہ ہر آنے والی مشکل کو توڑ دے گا جب میں کہتا ہوں ہر آنے والی مشکل مجھے تور دے گی۔

بلاشبہ کافکائی تنقید ایک منڈی کی صورت اختیار کر چکی ہے اور اس پر ہزاروں مضامین لکھے گئے البتہ میکس براڈ، مارٹن بیوبر اور ٹی ڈبلیو اڈورنو کا کام کافکا کی تفہیم میں معاون ہو سکتا ہے۔

کافکا کے ہاں انسان خارش زدہ کتوں کی طرح مجہول زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن میں ان کے اندرون خانہ کا رویہ، مایوسی اور کچھ درندہ صفت لوگوں کی معصوم معاشرت کو مغلوب رکھنے کی گھناؤنی خواہش نظر آتی ہے۔ کافکا نے دنیا بھر کے افسانے کو نئے موضوعات فراہم کیے مثلاً انسان کی جانور کے قالب میں تبدیلی عالمی افسانے کا موضوع رہا ہے جو بلاشبہ کافکا سے مستعار ہے۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/