غزل

یہ تحریر 2817 مرتبہ دیکھی گئی

تھکتے نہیں تھے ملنے سے جو صبح و شام لوگ

کرنے لگے گریز وہ بالالتزام لوگ

سُوے فلک اٹھی ہیں نگاہیں بھی ، ہاتھ بھی

یہ کیا ہوا کہ گریہ کناں ہیں تمام لوگ

کچھ امتیاز غالب و مغلوب میں نہیں

یکساں وباے عام میں ہیں خاص و عام لوگ

یک رنگ کر دیا ہے کس عِفریت نے انھیں؟

یہ شاد کام لوگ ہیں یا تشنہ کام لوگ؟

خواہش تو تھی کہ طائرِ کم پر ہوں بس شکار

پلٹی ہوا تو آ گئے خود زیرِ دام لوگ

آفت پڑی جو سر پہ تو یاد آ گیا خدا

دینے لگے اذانیں سرِ بُرج و بام لوگ

الحاد خُو بھی خوف سے کرنے لگے رجوع

ہیں مائلِ رکوع و سجود و قیام لوگ

ہونٹوں پہ ہے دعا و مناجات کا وفور

پڑھتے ہیں حمد و نعت و درود و سلام لوگ

ردِّ بلا کے سارے وظیفے ہیں بے اثر

پڑھتے ہیں کس زباں سے خدا کا کلام لوگ؟

اوڑھا ہے اک فریبِ تضرّع ، بزعمِ خویش

یوں بھی نکالتے ہیں مشیّت سے کام لوگ

پایندگی تو ہے عملِ خیر کا ثمر،

رکھتے نہیں ہیں یاد فقط نام وام لوگ

تم اپنے ساتھ فکرِ زر و مال بھی کرو

ہم مر گئے تو کیا ہے کہ ہم تو ہیں عام لوگ

لرزاں ہیں راہِ عشق پہ رکھتے ہوئے  قدم

ڈرتے ہیں دیکھتے ہوئے اب حُسنِ تام لوگ

آتا نہیں ہے چر کے لگانے سے کوئی باز

دیتے نہیں زبان کو اپنی ، لگام لوگ

خیرات لے کہ جان سے جائے سفید پوش

تشہیر کا یہ کرتے ہیں کیوں اہتمام لوگ

نوریؔ حیات و مرگ میں کچھ فاصلہ نہیں

قعرِ فنا سے دُور ہیں بس ایک گام لوگ