کھٹک رہا تھا کہیں جھول جب روانی کو
کہانی بان بھگانے لگا کہانی کو
گداز ، وحشتِ گریہ کے واسطے لاؤ
کہ نم کا تاپ میّسر تو آئے پانی کو
تمہاری یاد بھی شوقِ طلب میں تم پہ گئی
نئی نے آ ہی لیا آج پھر پرانی کو
تہِ چراغ جو یہ داغ سا چمکتا ہے
اُبھارتا ہے اُجالے کی جاودانی کو
وہ دلنشیں سا جمالِ سخن رچاؤ بھرا
کہ جس پہ ناز ہماری سبک بیانی کو
ابھی تو تہ میں جھلکتا ہے کرب کا کنکر
اُلٹ کے پھر سے بھرو جامِ رایگانی کو