غزل

یہ تحریر 1235 مرتبہ دیکھی گئی

کھٹک رہا تھا کہیں جھول جب روانی کو
کہانی بان بھگانے لگا کہانی کو

گداز ، وحشتِ گریہ کے واسطے لاؤ
کہ نم کا تاپ میّسر تو آئے پانی کو

تمہاری یاد بھی شوقِ طلب میں تم پہ گئی
نئی نے آ ہی لیا آج پھر پرانی کو

تہِ چراغ جو یہ داغ سا چمکتا ہے
اُبھارتا ہے اُجالے کی جاودانی کو

وہ دلنشیں سا جمالِ سخن رچاؤ بھرا
کہ جس پہ ناز ہماری سبک بیانی کو

ابھی تو تہ میں جھلکتا ہے کرب کا کنکر
اُلٹ کے پھر سے بھرو جامِ رایگانی کو