غزل
اکبر لاہوری
جس کی نگاہ سے لگی ، اس سے بجھی نہ دل کی آگ
کیسے بھجائیں ، دوستو ، اس غمِ مستقل کی آگ
گاہ قبائے آتشیں ، گاہ جبینِ شعلہ رنگ
گھر میں مرے پہنچ گئی خانہ متصل کی آگ
اس کی تپش سے الاماں ، اس کے غضب سے الحذر
نارِ سقر سے تیز تر آرزوئے خجل کی آگ
شعلہ ء حسن تھا جہاں ، اب ہے نگاہ کا دھواں
جلتی رہی بجھی بجھی جذبہء مشتعل کی آگ
اُن کے لیے نئی نہیں ، حسن ، تری تمازتیں
جن کو جلا کے رکھ گئی جلوہء جاں گسل کی آگ
سوزِ دروں سے تابناک آتش و آب و باد و خاک
جگنو ہے شعلہ صبا ، لالہ ہے آب و گل کی آگ
اکبر زاویہ نشیں چھپ کے رہا تو کیا ہوا
شعر مگر نہ چھپ سکا ، شعر مگر ہے دل کی آگ