غزل

یہ تحریر 1980 مرتبہ دیکھی گئی

غزل

اکبر لاہوری

جس کی نگاہ سے لگی ، اس سے بجھی نہ دل کی آگ

کیسے بھجائیں ، دوستو ، اس غمِ مستقل کی آگ

گاہ قبائے آتشیں ، گاہ جبینِ شعلہ رنگ

گھر میں مرے پہنچ گئی خانہ متصل کی آگ

اس کی تپش سے الاماں ، اس کے غضب سے الحذر

نارِ سقر سے تیز تر آرزوئے خجل کی آگ

شعلہ ء حسن تھا جہاں ، اب ہے نگاہ کا دھواں

جلتی رہی بجھی بجھی جذبہء مشتعل کی آگ

اُن کے لیے نئی نہیں ، حسن ، تری تمازتیں

جن کو جلا کے رکھ گئی جلوہء جاں گسل کی آگ

سوزِ دروں سے تابناک آتش و آب و باد و خاک

جگنو ہے شعلہ صبا ، لالہ ہے آب و گل کی آگ

اکبر زاویہ نشیں چھپ کے رہا تو کیا ہوا

شعر مگر نہ چھپ سکا ، شعر مگر ہے دل کی آگ